بدھ , 26 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Wednesday, 17 December,2025


کون ٹھہرا ہے کبھی عزم جواں کے سامنے





کون ٹھہرا ہے کبھی عزم جواں کے سامنے
کوہ جھک جاتے ہیں اپنے کارواں کے سامنے
آج ہے عشق جواں حسن جواں کے سامنے
جیسے اک برق پتاں برق پتاں کے سامنے
اشکہائے غم کی دل افروز قندیلیں لئے
آسماں اک اور بھی ہے آسماں کے سامنے
خنجر ابرو اگر تیری عنایت ساتھ ہو
پھر تو موت اچھی ہے عمر جاوداں کے سامنے
یہ فضا یہ موسم گل اور یہ کالی گھٹا
خوف عصیاں جرم ہے ایسے سماں کے سامنے
دل کی بات آئے نہ لب تک لاکھ چاہا تھا مگر
کچھ نہ اپنی چل سکی اشک رواں کے سامنے
ہوش میں آ اے طلبگار دوائے دردِ دل
ایسی ایسی بات وہ بھی مہ و شاں کے سامنے
کیا کروں میں اس جبیں کو اے مرے شیخ حرم
خود ہی جھک جاتی ہے ان کے آستاں کے سامنے
اشکہائے آتشیں کی تاب لانے سے رہی
میں نے پھیلایا جو دامن کہکشاں کے سامنے
اے حسیں پھولو تمہیں تو خار ہونا تھا یہاں
اب نہ بچ کر رہ سکو گے باغباں کے سامنے
اخؔتر ان کی بے رخی نے کر دیا افشائے راز
خود ہی رسوا ہوگئے سارے جہاں کے سامنے