تجزیہ
لوگ کہتے ہیں بصد فخر و مباہات اختر
اک حسینہ سر بازار بنی ہے رانی
دودھ سے چہرہ وہ دھوتی ہے بجائے پانی
اس کی دنیا میں اندھیرے کا کوئی نام نہیں
اس کے ہاتھوں میں مصیبت کا کوئی جام نہیں
اس کی تقدیر کا تابندہ ہوا سیارہ
اژدھے رنج و الم کے ہوئے نودو گیارہ
اسکے حق میں شب تیرہ بھی ہے صبح رخشاں
ہر درد بام پہ ہیں مہر و قمر آویزاں
اس کی دنیا میں ترنم کے سوا کچھ بھی نہیں
اس کے ہونٹوں پہ تبسم کے سوا کچھ بھی نہیں
میں یہ کہتا ہوں شرافت کا جنازہ نکلا
(۲۷ جنوری ۱۹۵۷ء(کچھوچہ فیض آباد) )