مسرور زیر لب ہے حرف سوال میرا
وہ خوب جانتے ہیں جو کچھ ہے حال میرا
طول سفر سمٹ کرو وگام رہ گیا ہے
رہبر بنا ہوا ہے ان کا خیال میرا
دل کوئے مصطفی ہے جاں سوئے مصطفیٰ ہے
سرمایہ کرم ہے آشفتہ حال میرا
اے دستگیر عالم اے سکیوں کے ہمدم
اب حال بھی بنادو جو کچھ ہے قال میرا
سایہ ہے میرے سر پر دامان ِ مصطفیٰ کا
ممکن نہیں جہاں میں اب تو زوال میرا
ہیں ان کی رہ گزر کے ذرے بھی ہر تا باں
میرا کمال کب ہے سارا کمال میرا
کوئی بھی انبیاء میں ثانی نہیں ہےجن کا
آقا ہے فی الحقیقت وہ بے مثال میرا
ان کے کرم نے خاؔلدکی میری دستگیری
جب بھی ہوا ہےغم سے بچنا محال میرا