مت پوچھ کیوں اداس مرا انتظار ہے
پابست زلف وعدۂ روز شمار ہے
کب تک غرور حسن کی یہ لن ترانیاں
عالم نگار خانہ ناپائیدار ہے
لمحات پر قنوط نے زلفیں بکھیر دیں
اے مرگ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے
دل سے قدوم ناز کی عشوہ گری نہ پوچھ
ہر داغ زخم نافۂ مشک تتار ہے
بلبل اسیر مہر لبی پھول زہر خند
کس کو خزاں کہیں گے اگر یہ بہار ہے
تارے بھی ہیں ضرور گرفتار انتظار
شب زندہ داریوں سے بھلا کسکو پیار ہے
باتیں جنوں نواز قدم سرفراز ہوش
ہشیار کتنا اخؔتر غفلت شعار ہے