میرے جذبۂ عشق کی ادنیٰ سی یہ تاثیر ہے
یاس ہے پہلو میں لیکن شوق دامنگیر ہے
تجھ کو کس سے شکوۂ ناکامئ تدبیر ہے
خود ترے ہاتھوں میں غافل خامۂ تقدیر ہے
مایۂ جمیعت دل ہے پریشاں خاطری
میں اسیرِ زلف ہوں وحشت میری جاگیر ہے
زیست کیا ہے؟ اک طلسم کائناتِ رنگ و بو
موت کیا ہے؟ اس طلسم خواب کی تعبیر ہے
ہر مصیبت میں ہے مضمر راحت و آرام بھی
ہاتھ میں دامانِ شب کی صبح کی تنویر ہے
ہوش میں ہوتا تو کچھ راز حقیقت کھولتا
اے سرورِ بے خودی یہ سب تری تقصیر ہے
میں اِدھر مشاطۂ تدبیر سے مصروف ہوں
اُس طرف حیرت زدہ آئینہ تقدیر ہے
ہو نہ ہو بھڑکا ہے دل میں آج شعلہ عشق کا
ورنہ کیوں ان آنسوؤں میں آگ کی تاثیر ہے
کاٹئے اس دور کو گوشہ نشیں بن کر خلیؔل
شورشیں برپا ہیں ہو سو، شورِ دار و گیر ہے