خدا جس کو محبوب اپنا بنائے
یہ بندہ بھی ان سے محبت جتائے
نہ کام آئے گا صرف اللہ پہ ایماں
وہ مومن ہے جو اُن پہ ایماں لائے
اُسی نورِ رحمت نے دنیا میں آ کر
نشاں ظلمتِ کُفر کے سب مٹائے
نہیں اپنی اولاد سے کس کو اُلفت
نہیں کون، دل جس کا دولت پہ آئے
کسوٹی مگر سچّے ایماں کی یہ ہے
ہر ایک چیز پر اُن کا حبّ غالب آئے
مناہی سے بچ کر اوامر پہ عامل
خُدا کا جو ہو کے خودی کو مٹائے
بڑا متقی وہ جو ہے اُن کا تابع
محبت کا مرکز وہی بن کے آئے
خدا کو جو چاہے وہ ہو جائے اُن کا
خدا اس کو محبوب اپنا بنائے
نہیں فرق محبوب اور محبّ میں
کہ محبوب خود ہی محبت جتائے
محبت کی معراج اسریٰ میں دیکھو
کہ حیرت زدہ ہیں سب اپنے پرائے
یہ اسریٰ کے دولھا کی ہے شانِ عظمت
کہ جبریل ہیں اپنے سر کو جُھکائے
وہ برق بُرّاق اِک ادنیٰ تڑپ میں
حرم اور اقصیٰ سے سدرہ در آئے
وہاں قاب و قوسین اور لامکاں سے
ندا بار بار اُدْنُ احمدﷺ کی آئے
محبّ اور طالب وہی ذات تو ہے
سرِ عرش محبوب کو جو بٹھائے
تحیّات و صلوٰت کی پیش کش پر
سلام اور رحمت کا مژدہ سُنائے
بشارت یہ اَوْحٰی اِلیٰ عَبْدِہٖ کی
علومِ ازل تا ابد مسکرائے
نہ کیوں غیب کے علم روشن ہوں اس پر
جسے راز اپنے خدا ہی بتائے
خدا ان پہ فرما کے اتمامِ نعمت
جو اس کا ہے وہ سب ان ہی کا بتائے
لو بُرہانؔ بن بیٹھا اُن ہی کا بندہ
’’محبت میں ایسے قدم ڈگمگائے‘‘