مجھ کو بھی اپنے در پہ بلالو حسن میاں
ارماں یہ مرے دل کا نکالو حسن میاں
دامن میں مجھ کو اپنے چھپالو حسن میاں
سینے سے اپنے مجھ کو لگالو حسن میاں
محرومیوں کی دھوپ نے جھلسادیا مجھے
مجھ کو تمَازتوں سے بچالو حسن میاں
اس پا شکستگی نے تو مجبور کردیا
گرتا ہوں اب میں مجھ کو سنبھالو حسن میاں
کی ہیں کھڑی ہُنود نے رَہْ میں رکاوٹیں
قَدْغَنْ ہر ایک راہ سے اٹھالو حسن میاں
نوری میاں کے نور کا صدقہ کرو عطا
رستے یہ ظلمتوں کے اُجالو حسن میاں
روضے پہ آپ کے میں تصور میں آگیا
حرماں نصیبیوں سے بچالو حسن میاں
جو نکہت مدینہ ہے مارہرہ میں اسے
جی چاہتا ہے دل میں بسالو حسن میاں
آؤں نظر میں ‘ آپ کے جلووں کا آئینہ
ایسی نگاہ مجھ پہ بھی ڈالو حسن میاں
جو خوش نصیب نور نگاہ حضور ہیں
ان میں مجھے بھی آپ ملالو حسن میاں
حاؔفظ ملول کیوں ہے بلائیں گے وہ ضرور
کہہ صبح و شام ’’مجھ کو بلالو حسن میاں‘‘
جب عرس چہلم میں شرکت کیلئے ویزا نہ ملا تو یہ چند اشعار ہوئے۔
(۲۵ جمادی الاول ۱۴۱۶ ھ ۔ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۵ء)