/ Saturday, 15 March,2025


مجھ کو بھی اپنے در پہ بلالو حسن میاں





آرزوئے دل

 

مجھ کو بھی اپنے در پہ بلالو حسن میاں
ارماں یہ مرے دل کا نکالو حسن میاں
دامن میں مجھ کو اپنے چھپالو حسن میاں
سینے سے اپنے مجھ کو لگالو حسن میاں
محرومیوں کی دھوپ نے جھلسادیا مجھے
مجھ کو تمَازتوں سے بچالو حسن میاں
اس پا شکستگی نے تو مجبور کردیا
گرتا ہوں اب میں مجھ کو سنبھالو حسن میاں
کی ہیں کھڑی ہُنود نے رَہْ میں رکاوٹیں
قَدْغَنْ ہر ایک راہ سے اٹھالو حسن میاں
نوری میاں کے نور کا صدقہ کرو عطا
رستے یہ ظلمتوں کے اُجالو حسن میاں
روضے پہ آپ کے میں تصور میں آگیا
حرماں نصیبیوں سے بچالو حسن میاں
جو نکہت مدینہ ہے مارہرہ میں اسے
جی چاہتا ہے دل میں بسالو حسن میاں
آؤں نظر میں ‘ آپ کے جلووں کا آئینہ
ایسی نگاہ مجھ پہ بھی ڈالو حسن میاں
جو خوش نصیب نور نگاہ حضور ہیں
ان میں مجھے بھی آپ ملالو حسن میاں
حاؔفظ ملول کیوں ہے بلائیں گے وہ ضرور
کہہ صبح و شام ’’مجھ کو بلالو حسن میاں‘‘

جب عرس چہلم میں شرکت کیلئے ویزا نہ ملا تو یہ چند اشعار ہوئے۔
(۲۵ جمادی الاول ۱۴۱۶ ھ ۔ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۵ء)