نہ کیوں والنجم برلب گل کھلیں گلزارِ مکاں میں
کہ ہے واللیؔل جلوہ ریزان کے سنبلستان میں
کچھ ایسا مست و بےخود ہوں خیال کوئے جاناں میں
کہ رکھ چھوڑا ہے گلدستہ ارم کا طاقِ نسیاں میں
لگادی آگ بڑھ کر زندگی کے جیب و داماں میں
جنوں کو ہوش گر آیا تو آیا کوئے جاناں میں
زمانہ کیا دوعالم بھی سماسکتے ہیں انساں میں
کچھ ایسی وسعتیں ہیں اک دلِ مردِ مسلماں میں
ہوائے غیرتِ حق خاکِ ہستی بھی اڑا دے گی
قدم رکھا خرد نے گر کسی کے باغِ عرفاں میں
وہ کی ہے ضوفشانی جلوۂ رخسارِ جاناں نے
پڑی ہے صبح محشر منہ لپیٹے اپنے داماں میں
یہ کس نے گد گدایا ہے نسیم خلد کو یارب
کہ اب تک رقص کرتی ہے مدینے کے گلستاں میں
بتا اے آرزوئے دل کدھر کا قصد رکھتی ہے
کہ طیبہ میری نظروں میں ہے جنت میرے داماں میں
خلیؔل اس در پہ مٹ جاؤ سکونِ زیست کی خاطر
غنیمت ہیں جو دن باقی رہے عمر گریزاں میں