نہ سمجھو کہ وہ بس مدینے میں ہیں
میری آنکھوں میں میرے سینے میں ہیں
بگاڑے گی تو کیا ہوائے مخالف
مرے نا خدا جب سفینے میں ہیں
تمہارے گلی سے چلے آئے جب ہم
نہ تو مرنے میں ہیں اور نہ جینے میں ہیں
جو اسرار مخفی تھے سارے جہاں پر
وہ سب میرے آقا کےسینے میں ہیں
اے حبیب خدا تم پہ روشن ہے سب
حسرتیں کیا کہوں کتنی سینے میں ہیں
جس گلی سے کئے وہ مہکتی رہی
کمالات کیسے پسینے میں ہیں
زمانہ ہوا عرش پر وہ کئے تھے
نبی اور سب اب بھی زینے میں ہیں
مزے آنکھ سے ان کی پینے میں ہیں جو
وہ کب جام و مینا سے پینے میں ہیں
یہ ریحؔاں کو مژدہ نسیم سحر دے
تجھے وہ بلاتے مدینے میں ہیں