/ Thursday, 06 February,2025


نہ سمجھو کہ وہ بس مدینے میں ہیں





نہ سمجھو کہ وہ بس مدینے میں ہیں

میری آنکھوں میں میرے سینے میں ہیں

بگاڑے گی تو کیا ہوائے مخالف

 

مرے نا خدا جب سفینے میں ہیں

 

تمہارے گلی سے چلے آئے جب ہم

 

نہ تو مرنے میں ہیں اور نہ جینے میں ہیں

 

جو اسرار مخفی تھے سارے جہاں پر

 

وہ سب میرے آقا کےسینے میں ہیں

 

اے حبیب خدا تم پہ روشن ہے سب

 

حسرتیں کیا کہوں کتنی سینے میں ہیں

 

جس گلی سے کئے وہ مہکتی رہی

 

کمالات کیسے پسینے میں ہیں

 

زمانہ ہوا عرش پر وہ کئے تھے

 

نبی اور سب اب بھی زینے میں ہیں

 

مزے آنکھ سے ان کی پینے میں ہیں جو

 

وہ کب جام و مینا سے پینے میں ہیں

 

یہ ریحؔاں کو مژدہ نسیم سحر دے

 

تجھے وہ بلاتے مدینے میں ہیں