نغمہ زا زندگی کا تار نہ ہو
خندہ زن چشم اشکبار نہ ہو
سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں
بیقراری کہیں قرار نہ ہو
زندگی بے قرار رہتی ہے
سایۂ زلف مشکبار نہ ہو
قبل محشر نہ حشر ہوجائے
جلوۂ یار آشکار نہ ہو
محفل ناز میں ہے آپہونچا
دل کہیں آج داغدار نہ ہو
کوئے جاناں میں جاکے اے ناصح
یہ تو ممکن نہیں شکار نہ ہو
جس کو خورشید لوگ کہتے ہیں
وہ کہیں نقش پائے یار نہ ہو
ذرے ذرے میں شان اخؔتر ہے
یہ کہیں خاکِ کوئے یار نہ ہو