/ Friday, 14 March,2025


نہیں کوئی حاجت تری چارہ گر ہے





نہیں کوئی حاجت تری چارہ گر ہے
مداوائے غم میرا درد جگر ہے
نقاب رُخِ ذرۂ پرور جو اُلٹی
زمانے نے سمجھا طلوع سحر ہے
نہ پھر کیوں ہو تشہیر راز محبت
لو چشم تمنا مری پردہ در ہے
وہ کم تر ہے اک کرمِ شب تاب سے بھی
جو منت کش روشنیٔ دگر ہے
ستارے بھی ذروں سے شرماگئے ہیں
نگاہِ محبت بڑی کارگر ہے
مرے دل میں ہیں آج وہ جلوہ فرما
مرا دل نہیں نور کا ایک گھر ہے
ابھی تو کھنکتے نہیں جام و مینا
سحر کیسے ہوگی فریب سحر ہے
نہ کوشش کرو مجھ سے چھپنے کی ہرگز
سمند تصور مرا تیز تر ہے
سمجھنے ہی والا نہیں کوئی ہمدم
لئے گود میں داستاں چشم تر ہے
الہی مجھے عزم محکم عطا کر
محبت کے دریا میں پہلا سفر ہے
نہ پہلو میں میرے نہ زلفوں میں ان کی
خدا جانے کس جا دلِ معتبر ہے
لطافت ہے کانٹوں میں بھی ان کے در کے
دیار ان کا اخؔتر بہشت نظر ہے
زمیں کو بناؤں گا رشکِ فلک میں
ستارے چھپائے مری چشم ترہے
مجھے مرتے مرتے ملی زندگانی
نگاہِ محبت بڑی کارگر ہے
ضرورت نہیں ہے کسی راھبر کی
مرا رہنما میرا ذوق نظر ہے
دماغ اپنا اوج فلک پر ہے اخؔتر
مری سمت جان جہاں کی نظر ہے