ایک خط کے جواب میں
تمہید
نظر ہے میری سوادِ خطِ محبت پر
سطور مثل رگ جاں نقوش خلد نظر
چمک جو معنئ لفظ سیاہ کی دیکھے
نگاہ مہر ضیاپاش بھی ہوخیرہ تر
بلاتمثیل
اتر کے دیکھ ذرا آشیانۂ دل کو
ہے تجھ کو آرزوئے جلوۂ بلال اگر
نمایاں صفحۂ قرطاس پہ ہیں ہوں نقطے
کہ جیسے چرخ پہ بکھرے ہوئے ہوں نجم و قمر
دکھایا جلوۂ بندہ نوازیاں تو نے
مری نگاہ کو فطرت کی راز داں کہہ کر
کہیں پہ عجز کے دریا میں شانِ طغیانی
کہیں پہ سجر دعا میں ہیں بے بہا گوہر
خلاصہ یہ ہے کہ ہے ایک گلشن الفت
سرور خاطر غمگین و مخزن راحت