/ Friday, 14 March,2025


نفاق اُس سے ہو جائے گا یوں روانہ





صلی اللہ علی محمد

 

نفاق اُس سے ہو جائے گا یوں روانہ
کہ ہو پاک پانی سے اطرافِ خانہ
انھیں چار لفظوں کے یہ بھی فضائل
ہوئے ہیں بَہ اَسنادِ مذکور حاصل
کہ جو کوئی لائے گا اُن کو زباں پر
درِ رحمتِ حق کھلیں اس پہ ستّر
 کہا خضر و الیاس نے اور یہ بھی
کہ تقریبِ اوقات ایسی ہوئے تھی
کہ یعنی کوئی جانبِ شام سے تھا
حضورِ حبیبِ الٰہی میں آیا
کیا غرض اس نے کہ غم خوارِ اُمّت
مِرا باپ ہے ناتواں کم بصارت
اُسے ضعفِ پیرانہ سالی ہے لاحق
نہیں آپ تک آنے جانے کے لائق
تمہارا ہے پر
اُس کو شوقِ زیارت
دل و جاں سے ہے محوِ ذوقِ زیارت
کیا ایسا ارشاد محبوبِ رب نے
کہ تِرا پدر سات شب اُس کو پڑھ لے
پڑھے یعنی ان چار لفظوں کو ہر شب
تو بر آئے گا باپ کا تیرے مطلب
میسر اُسے خواب میں ہو زیارت
مناسب ہے اب اس خبر کی روایت
غرض اُس نے ارشادِ خیر البشر سے
کیا جا کے اظہار اپنے پدر ہے
کیا باپ نے اُس کے اس کا وظیفہ
ہوا واہ مقبول کیسا وظیفہ
مشرف ہوا وہ حضوری کا سائل
ہوا خواب میں اُس کو دیدار حاصل
ہوئی اور مروی یہاں یہ روایت
کہ راوی نے کی ہے بیاں یہ روایت
کہ یعنی اگر محفلوں میں تم آؤ
و یا اُٹھ کے تم واں سے باہر کو جاؤ
کہو اس طرح سے بوقتِ نشستن
پڑھو اور یہ ہی بَہ ہنگامِ رفتن

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

موکل کو بھیجے گا واں ربِّ اکبر
رہے گا فرشتہ موکل وہ تم پر
نہ غیبت کسی کی وہاں پر کرو تم
نہ غیبت تمہاری کریں اور مردم

سنو مومنو یہ عجائب روایت
لکھی دہلوی شیخ نے کیا حکایت
کہ دیکھا تھا کعبے میں میں نے کسی کو
بسر کر رہا تھا وہ یوں زندگی کو
کبھی تو طوافِ حرم تھا وہ کرتا
صفا اور مروہ میں بھی دوڑتا تھا

تمامی مواقف مناسک میں حج کے
وہ تھا گرم کوشش خلوصِ دلی سے
کہ اطرافِ کعبہ میں آتا جہاں تھا
رسولِ خدا پر وہ صلوات خواں تھا

کہا کہنے والے نے او مردِ ناداں
دعائیں پڑھا کرتے ہیں اور کچھ یاں
یہاں کے لیے اور آئی دعا ہے
بھلا کب یہ صلوات خوانی کی جا ہے
جواب اُس نے ایسا دیا معترض کو
کہ ہے تو یہی بات کہتا جو ہے تو
و لیکن کیا میں نے ہی عہدِ کامل
کہ صلوات میں کچھ کروں گا نہ شامل
پڑھے جاؤں گا یعنی صلوات اکثر
جنابِ نبی خاتم المرسلیں پر
سبب اس کا یہ اور ہے یہ حقیقت
کہ میرے پدر کی ہوئی جب کہ رحلت
پسِ مرگ میں نے جو مُنھ اُس کا دیکھا
بَہ
شکلِ حمار اُس کا چہرہ ہوا تھا
مجھے اِس طرح کا ہوا دیکھ کر غم
کہ میں سو گیا غم کی حالت میں اُس دم
مِرے بختِ بیدار نے کی جو یاری
حضوری ہوئی مجھ کو حضرت نبی کی
جو میں نے وہ پُر نور دیدار پایا
بَہ دامانِ خیرالورا ہاتھ لایا
شفاعت
شفیعِ قیامت کی چاہی
کہ ہو باپ پر میرے
فضلِ الٰہی
سبب ایسے جرم و خطا کا بھی پوچھا
کہ اُس کے لیے موجبِ مسخ کیا تھا
کیا مجھ کو حضرت نے ارشاد ایسا
کہ سود و رِبا باپ تھا تیرا کھاتا
خورندہ غرض سود کا جو کوئی ہے
جزا و سزا اُس بشر کی یہی ہے
مگر وقتِ خفتن بَہ وِردِ مقرر
درود ایک سو بار پڑھتا تھا مجھ پر
سو اس کے سبب سے بحالِ مصلّی
ہوئی ہے شفاعت مشفَّع نبی کی
زبانِ مبارک سے مژدہ یہ سن کے
ہوا جلد بیدار خوابِ گراں سے
جو مُنھ کھول کر باپ کا اپنے دیکھا
شبِ چار دَہ کا وہ گویا قمر تھا
غرض قبر میں بھی پس و د
فنِ میّت
سنی ہاتفِ غیب سے یہ بشارت
کہ یہ باپ تیرا جو صلوات خواں تھا
رسولِ خدا پر تحیت رساں تھا

یہ اورادِ  صلوات کا ہی سبب ہے
کہ یہ ہو گیا موردِ لطفِ رب ہے
کیا لکھنے والوں نے مرقوم ایسا
کہ اک مردِ صالح کسی شہر میں تھا
ہوئے تیس سو قرض دینار اُس پر
ہوا اس سبب سے وہ حیران مضطر
یہاں تک ہوا اس کے اوپر تقاضا
کہ دارالقضا تک یہ مقروض پہنچا
کہا اُس سے قاضی نے اے نیک طینت
تجھے میں مہینے کی دیتا ہوں مہلت
مہینے میں تو قرض اپنا ادا کر
یہ بارِ گراں رکھ نہ گردن کے اوپر
غرض مردِ صالح بدرگاہِ باری
ہوا گرم اظہار فریاد و زاری
وسیلہ درودِ مبارک کا کر کے
وہ خواہانِ مطلب تھا درگاہِ رب ہے
بَہ وِردِ درود اور آہ و فغاں میں
بسر اُس نے کیں بیس اور سات راتیں
شبِ بست و ہفتم وہ کیا دیکھتا ہے
کہ اُس سے کوئی شخص یوں کہہ رہا ہے
کہ ہے  تیرے اُوپر جو قرضِ نمایاں
کیا حق تعالیٰ نے یوں اُس کا ساماں
کہ وہ  جو وزیر ابنِ موسیٰ علی ہے
تِرے قرض کی اُس پہ تنخواہ کی ہے
علی ابنِ موسیٰ سے جا کے بیاں کر
کہ ہے تجھ کو حکمِ جنابِ پیمبر
کہ دے تیس سو مجھ کو دنیار اس دم
یہی حکم کرتے ہیں سردارِ عالَم
یہ کہتا ہے صالح کہ جب خواب دیکھا
تو بس خرّم و شادماں ہو کے چونکا
مگر دل میں میرے یہ تشویش آئی
کہ جو مجھ سے وہ شخص مانگے گواہی
تو پھر کس کو لاؤں گا بہرِصداقت
صداقت نہ ہوگی تو ہوگی ندامت
اِسی فکر میں دوسری رات آئی
ہوئی پھر رسولِ خدا تک رسائی
کیا اوّلِ شب تھا ارشاد جیسا
کیا دوسری رات بھی حکم ویسا
مجھے پھر ہوئی فکرِ راہِ صداقت
کہ ہے کون میرا گواہِ صداقت
کہوں کیا کہ پھر تیسری رات میں بھی
وہی حال پایا وہی خواب دیکھی
کیا پھر بھی حضرت نے ارشاد مجھ کو
گیا کیوں نہیں ابنِ موسیٰ تلک تو
کیا میں نے معروض سلطانِ دیں سے
جنابِ نبی رحمت العالمیں سے
کہ میں ہوں نشان و علامت کا خواہاں
کہ روئے صداقت ہو جس سے نمایاں
جنابِ حبیبِ خدا نے یہ سن کر
یہ فرمایا ہو آفریں تیرے اُوپر
کہ تو ہے نشان و علامت کا طالب
قبولِ سخن پر صداقت کا طالب
اگر تجھ سے پوچھے علامت بتا دے
ہماری طرف سے یہ اُس کو پتا دے
کہ اے ابنِ موسیٰ یہ ہے تیری عادت
کہ ہوکر نمازِ سحر سے فراغت
یہاں تک کہ خورشید نکلے فلک پر
درودِ مبارک تو اٹھتا ہے پڑھ کر
معیّن ہی کی ہے یہ تعداد  دو عدت
ہزار ایک پڑھتا ہے تو پانچ نوبت
اس اوراد کے وقت اے ابنِ موسیٰ
کلام و سخن تو نہیں  اور کرتا
یہ ہدیہ جو تو بھیجتاجاوداں ہے
بجز عالم الغیب سب سے نہاں ہے
و یا وہ خبردار ہیں اس عمل سے
کہ ہیں کاتبِ خیروشر وہ فرشتے
کہا مردِ صالح نے جس وقت میں نے
ملاقات کی ابنِ موسیٰ سے جا کے
سبھی حال و احوال جو خواب کا تھا
بَہ تفصیل و تشریح اُس کو سنایا
ہوا  شاد و خرّم وہ سن اس خبر کو
ہوا میرا مدّاح اور آفریں گو
اُسی وقت وہ نقد دینار لایا
کہ لے جلد کر تو ادا قرض اپنا
دیے اور بھی مجھ کو دینار اس نے
کہ ہم وزنِ دینارِ اوّل سے ہی تھے
کہا یہ جو ہوں تجھ کو دینار دیتا
یہ نفقہ وظیفہ سمجھ اپنے گھر کا
سہ بارہ دیے دینار مجھ کو
کہ دینارِ اوّل سے تھے ہم ترازو
کہ کر اس سے حاصل متاعِ تجارت
کہ ہو تجھ کو روزی سے یعنی فراغت
قسم اور مجھ کو یہ اُس نے دلائی
کہ ثابت رہے شیوۂ آشنائی
اگر تجھ کو حاجت کوئی پیش آئے
مناسب ہے تو مجھ کو آ کر سنائے
غرض وہ جو دینارِ اوّل دیے تھے
گیا پاس قاضی کے میں اُن کو لے کے
سبھی میں نے قصّہ بھی اپنا سنایا
پھر اس نے میرے مدّعی کو بلایا
کہا اس کے ذمّے جو ہے قرض تیرا
ادا میں کروں گا یہ ذمّہ ہے میرا
سنا جب کہ قاضی سے یہ مدّعی نے
کہا قرض میں بخشتا ہوں خوشی سے
وہ قاضی نے دینار جو لا رکھے تھے
کہا یہ خدا کی رضا کے لیے ہے
اب ان کو بھی او مردِ صالح اُٹھا لے
تجھے بخشتا ہوں، براہِ خدا، لے
بیاں کیجیے اور کیا فضائل
کہ ہوتے ہیں صلوات خوا نی سے حاصل
کوئی وقت ہو یا کوئی حال لاحق
ہر اوقات میں ہے یہ اوراد لائق
خصوصِ شبِ جمعہ صلوات پڑھنا
درود اور تسلیم ابلاغ کرنا
و یا روزِ آدینہ حضرت نبی پر
سلام اور صلوات کرنا مقرر
فضائل میں ہے اور روزوں سے بہتر
مراتب میں افضل مدارج میں اکبر
شرافت  جو اس روز و شب کے لیے ہے
ثبوت اُس کا اخبار و آثار سے ہے
ورودِ روایت یہاں اور بھی ہیں
ثبوتِ کلامِ جنابِ نبی ہیں
کہ کہتے تھے یوں دین و دنیا کے سرور
کہ اس دن پڑھو مجھ پہ صلوات اکثر
کہ اس کو بَہ تخصیص لاتے ہیں مجھ تک
مِرے سامنے عرض کرتے ہیں بے شک
تو میں خیر کی تم کو دیتا دعا ہوں
گناہوں کی بھی مغفرت چاہتا ہوں
روایت میں ہے اور اس طرح آیا
کہ ارشاد ہے خاتمِ انبیا کا
کہ تم روزِ آدینہ، اے مومنو، جو
درود اور صلوات کو بھیجتے ہو
گزر اُس کو ہوتا ہے عرشِ بریں پر
نہیں عرش سے اُس کا مسکن فرو تر
فرشتے یہ آپس میں کہتے ہیں یارو
تم اس پڑھنے والے پہ صلوات بھیجو
ہوا یہ بھی ا
ہلِ فضائل سے مروی
فضیلت شبِ جمعہ کی یہ بیاں کی
کہ کیا ہی خصوصیت اس رات کی ہے
کہ اس رات تسلیم میں جو کوئی ہے
جواب اُس کو دیتے ہے سردارِ عالَم
بَہ
نفسِ نفیس و بَہ ذاتِ مکرّم
کیا یہ بھی مرقوم علمائے دیں نے
کتابِ حدیثِ شریفِ نبی سے
کہ حضرت نے ارشاد ایسا کیا ہے
کہ یہ وصف یعنی شبِ جمعہ کا ہے
کہ اس شب میں جو کوئی  بندہ خدا کا
درود ایک سو بار مجھ پر پڑھے گا
تو سو حاجتیں اُس کی ہوئیں گی آساں
مگر اُس کی تفصیل کا ہے یہ عنواں
کہ پائے گا ستّر وہ حاجاتِ دنیا
رہیں تیس باقی وہ ہیں بہرِ عقبیٰ
یہاں اور بھی ہے ورودِ روایت
کہ ہے روزِ آدینہ کی یہ فضیلت
کہ وردِ درود اس میں جو یوں کرے گا
ہزار ایک اس روز یعنی پڑھے گا
نہ باندھے گا دنیا سے وہ رختِ رحلت
نہ دیکھے گا جب تک مکان  اپنا جنّت
شب و روزِ آدینہ میں جو فضائل
کہ صلوات خوانی سے ہوتے ہیں حاصل
اِسی طرح فاضل دو شنبہ کی شب ہے
حصولِ مَراتب کا عالی سبب ہے
ہوئی اور یوں ایک وارد روایت
کہ ہے پنج شنبہ کو بھی یہ فضیلت
کہ جو کوئی سو بار صلوات گن کر
پڑھے گا جنابِ رسولِ خدا پر
کبھی وہ نہ محتاج و مفلوک ہوگا
نہ ہوگا وہ مفلوک و محتاج ہوگا
کدھر ہیں  وہ دیدارِ حضرت کے طالب
کہاں ہیں وہ مشتاقِ حُسنِ مَطالب
کہ سن لیں مِرے اِس کلام و بیاں کو
کریں اِس بیاں پر فدا اپنی جاں کو
کہ بہرِ حصول و وصولِ زیارت
لکھی ہے درودِ مبارک کی کثرت
نہیں کوئی مومن زمانے میں ایسا
کہ مشتاقِ دیدارِ حضرت نہ ہوگا
بس اب لازمِ وقت ہے مومنوں پر
درود اور صلوات کا ورد اکثر
ذرا اور بھی خاتمے پر، عزیزو!
خداوندِ اکبر کا ارشاد سن لو

صَلُّوْا عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ

خدائے جہاں بادشاہِ جہاں ہے
پناہِ زمین و پناہِ زماں ہے
ملائک، کواکب کا، جنّ و بشر کا
وہ خلّاق و معبود و روزی رساں ہے
دیے اپنے محبوب کو وہ مَراتب
کہ تعریف سے جس کی قاصر زباں ہے
کہا مومنوں سے کہ یہ حکم سن لو
نبی پر خدا اُس کا صلوات خواں ہے
ملائک بھی ہیں اس کو تسلیم کرتے
وہ ایسا نبی میرا با عز و شاں ہے
سلام اور صلوات تم بھی تو بھیجو
یہ حکمِ خدا تم کو، اے مومناں ہے
بس اب، مومنو! کؔافیِ خستہ جاں کا
یہی حرزِ جاں اور وردِ زباں ہے
سلام و صلاۃ و درود و تحیت
نثارِ جنابِ شفیعِ قیامت