نگہت نہ تیری زلف کی گر چار سوگئی
کس دھن میں پھر نسیم سحر کو بہ کو گئی
پوچھا نہ تم نے حال دل بے قرار کا
حسرت بھی اٹھ کے بزم سے شرمندہ روگئی
وابستہ میرے دم سے یہ سب ہائے وائے ہے
اٹھا جو میں تو دیکھنا سب ہاؤ ہُوگئی
اے اشک تجھ سے بھی نہ ہوا دل کا کچھ علاج
آنکھوں سے گر کے اور تری آبروگئی
اللہ رے بے خودئ محبت کہ بارہا
خود میری جستجو میں مِری جستجو گئی
نظّاروں میں وہ لطف میسر نہیں رہا
شاید کہ دلفریبئ ہر رنگ و بو گئی
ساقی نے میرے نام پہ تشکیل بزم کی
میخانے میری روح جو بہر وضو گئی
آنا تھے اور نہ آیا ہمیں چین عمر بھر
جانی تھی اور نہ ہم سے محبت کی خُوگئی
سنتے ہیں مے سے توبہ کئے بیٹھے ہیں خلیؔل
اب میکدہ سے لذتِ جام و سبو گئی