/ Friday, 14 March,2025


نکل چکے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے





غزل  بہ عنوان ِ یادِ ماضی

نکل چکے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے
اب اہلِ ہوش سے کہہ دو نہ آئیں سمجھانے
بساطِ بزم اُلٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش، سُبُو چُپ، اُداس پیمانے
یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لُوٹ لیا
یہ کس کی یاد میں سر پھوڑتے ہیں دیوانے
بھری بہار کا منظر ابھی نگاہ میں تھا
مری نگاہ کو کیا ہوگیا خدا جانے
ہے کون بر لبِ ساحل ، کہ پیشوائی کو
 قدم اٹھائے بہ اندازِ موج، دریا نے
تمام شہر میں اک درد آشنا نہ مِلا
بسائے اِس لئے اہلِ جُنوں نے ویرانے
نہ اب وہ جلوۂ  یُوسف نہ مصر کا بازار
نہ اب وہ حُسن کے تیور، نہ اب وہ دیوانے
نہ حرف ِحق، نہ وہ منصور  کی زباں، نہ وہ دار
نہ کربلا، نہ وہ کٹتے سَروں کے نذارانے
نہ بایزید﷫، نہ شبلی﷫، نہ اَب جنید﷫ کوئی
نہ اَب وہ سوز ، نہ آئیں، نہ ہاؤ ہُو خانے
خیال و خواب کی صورت بکھر گیا ماضی
نہ سلسلے نہ وہ قصّے نہ اب وہ افسانے
نہ قدر داں، نہ کوئی ہم زباں، نہ انساں دوست
فضائے شہر سے بہتر ہیں اب تو ویرانے
بدل گئے ہیں تقاضے مزاج وقت کے ساتھ
نہ وہ شراب، نہ ساقی، نہ اَب وہ میخانے
تمام بند جُنوں توڑ بھی کیا، لیکن
اَنّا کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں فرزانے
یہ انقلاب کہاں آسماں نے دیکھا تھا
اُلجھ رہے ہیں غم زندگی سے دیوانے
ہرایک اپنے ہی سُودو زیاں کی فکر میں ہے
کوئی تو ہو، جو مرے دل کا درد پہچانے
ترا وجود غنیمت ہے پھر بھی اے ساقی!
کہ ہوگئے ہیں پھر آباد آج میخانے
وہی ہجوم، وہی رونقیں ، وہی میکش
وہی نشہ، وہی مستی، وہی  طرب خانے
جبیں کو در پہ ترے رکھ دیا یہی کہہ کر
یہ جانے اور ترا سنگِ آستاں جانے
اُٹھیں گے پی کےتری می نواز آنکھوں سے
یہ طے کئے ہوئے بیٹھے ہیں آج دیوانے
ہے تیری ذات وہ اک شمعِ انجمن افروز
کہ جس کی لَو پہ لپکتے رہیں گے پروانے
کوئی نشاط کا ساماں، کوئی طرب کی سبیل
لگی ہیں پھر سر میخانہ بدلیاں چھانے
تو بولتا ہے تو چلتی ہے نبض میخانہ
تُو دیکھتا ہے تو کرتے ہیں رقص پیمانے
یہ مستیاں نہیں جام و سسُبُو کے حصّے میں
تری نگاہ سے پیتے ہیں تیرے دیوانے
نصؔیر! اشک تو پلکوں پہ سب نے دیکھ لیے
گزر رہی ہے جو دل پر، وہ کوئی کیا جانے
(عرش ِ ناز)