پوشیدہ راز کو اب ہونٹوں پہ لارہا ہوں
میں داغہائے دل کو اپنے دکھا رہا ہوں
برق تپاں کی جرأت دیکھیں کہاں تلک ہے
اجڑا ہوا نشیمن پھر سے بسا رہا ہوں
اے مہربان مالی صیاّد کو خبر دے
اجڑا ہوا نشیمن پھر سے بسا رہا ہوں
بیٹھے ہوئے نشیمن میں مسکرانے والو
دیکھو میں دار پر ہوں اور مسکرارہا ہوں
محدود اپنی رغبت گل تک نہیں ہے یارو
سینے سے خار کو بھی اپنے لگا رہا ہوں
لللہ اے ہواؤ مجھ کو ابھی نہ چھیڑو
جو مجھ سے پھر گیا ہے اس کو منا رہا ہوں
شاید کرم یہ میرے حسن خیال کا ہے
کعبے کا بھی اے اخؔتر قبلہ بنا رہا ہوں