قبر میں لیکے تیری دید کا ارمان گیا
کون کہتا ہے کہ میں بے سرو سامان گیا
صرف دنیا سے وہی صاحبِ ایمان گیا
جو ترا ہوکے رہا دل سے تجھے مان گیا
مَرْحَبَا آپ وہاں صاحب اَسْریٰ پہنچے
نہ جہاں کوئی فرشتہ کوئی انسان گیا
جب اُٹھی چشم گدا سوئے مدینہ اُٹّھی
جب گیا سَرْورِ عالم کی طرف دھیان گیا
میں تمھاری نگۂ لطف و عنایت کے نثار
جز تمہارے نہ کسی اور طرف دھیان گیا
نفسی نفسی تھی نہ تھا ہوش کسی کو لیکن
تیرا دیوانہ تجھے حشر میں پہچان گیا
نزع میں پیش نظر تھا رخ مولا حاؔفظ
یعنی دنیا سے میں پڑھتا ہوا قرآن گیا
(مطبوعہ ہفت روزہ المدینہ کراچی جولائی ۱۹۷۱ء)