راز وحدت کا جہاں میں راز داں کوئی نہ تھا
فتی احمد رضا خاں زند امتِ ختم رسلﷺ کا پاسباں کوئی نہ تھا
شمع تھی محفل میں روشن کوئی پروانہ نہ تھا
تشنہ لب تھے سیکڑوں ساقئ میخانہ نہ تھا
کفر کے بادل فزائے دہر پر چھائے رہے
راہر و ایمان کی راہوں سے کترائے رہے
چھا گیا تھا زندگی کی رہگزاروں پر جمود
خاک کے ذرے فلک پر چاند تاروں پر جمود
سیکڑوں ابلیس بھی تھے بھیس میں انسان کے
لوٹنے والے تھے لاکھوں دولتِ ایمان کے
ابر میں پوشیدہ تھا علم و یقیں کا آفتاب
دے نہ سکتا تھا کوئی باطل پرستوں کو جواب
شرک تھا جب ناز کرنا احمدِ مختارﷺ پر
نکتہ چیں تھے لوگ علم سید ابرارﷺ پر
ہر دلی ہر غوث کو بے دست و پا سمجھا گیا
یارسول اللہﷺ کہنے پر تھا فتوی شرک کا
کفر پر اِک دن مثیت کو جلال آہی گیا
رب اکبر کو شہہ دیں کا خیال آہی گیا
صورتیں تسکین کی نکلیں دل سیماب سے
اک کرن پھوٹی اچانک چرخ پر مہتاب سے
اس کرن نے راہ ِ ایماں کو منور کر دیا
دشتِ کو گلشن تو کانٹوں کو گل تر کر دیا
اس کرن کو اہل دیں احمد رضا کہنے لگے
کشتی اسلام کا سب ناخدا کہنے لگے
اس کا دل عشقِ محمدﷺ میں ہمیشہ چُور تھا
رند ساقئ مدینہ بے پئے مسرور تھا
اہل سنت والجماعت کا وہ رہبر ہو گیا
اس نے جو کچھ لکھ دیا کاغذ پہ پتھر ہوگیا
راز کے ایمان و حرمت کے نگہباں زندہ باد
زندہ باد اے مہ باد