راہِ طیبہ میں بے قراروں کو یاد آئیں قدم قدم سجدے
ہر نفس میں مہک ورُود کی ہو جگمگائیں قدم قدم سجدے
عشق ان کا جو سرفراز کرے بندگی بندگی پہ ناز کرے
اشک آنکھوں سے دم دبدم برسیں مسکرائیں قدم قدم سجدے
ہم کو سرکار نے بلایا ہے سر پہ لطف وکرم کا سایہ ہے
شکر کا بس یہی تقاضہ ہے کرتے جائیں قدم قدم سجدے
بندگی کی ہے یہ اساس حسیں سجدۂ شوق سے سجاؤ جبیں
سوز ڈھل جائے سارے نغموں میں گنگنائیں قدم قدم سجدے
اَب سفر اپنا ہے کرم کی طرف حسُن سرکار ہے شرف ہی شرف
توڑ کر خواہشوں کے سارے صنم کرتے جائیں قدم قدم سجدے
دَہر سے بے نیاز ہوجائیں ہم سراپا نماز ہو جائیں
عِشق ان کا مراد بن جائے رنگ لائیں قدم قدم سجدے
ہے یہی عشق اَحمد ِ مختار مئے توحید سے ہو دل سرشار
کوئی اس کے سوا نہیں مسجود، دیں صدائیں قدم قدم سجدے
ذوق خاؔلد ہمارا خام سہی ربط ان برائے نام سہی
لطف جب کہ بندگی کے لیے گد گدائیں قدم قدم سجدے