رحمت مآب جان ِ کرم پیکر صفات
اِک ذات میں ہیں جمع ہزاروں تجلیّات
آزار ِ عشق میں ہے نہاں لطف زندگی
ربطِ غم حبیب ہے سرمایۂ حیات
ایماں اگر تمہاری محبّت کا نام ہے
قرآن پاک سے ہے عبارت تمہاری ذات
تیری زباں خدا کی زباں ہے خدا گواہ
عین ِ کلام ِ حق ہے تِری ایک ایک بات
کوئی بتائے اب مرے دامن میں کیا نہیں
عشق نبی ملا تو ملی ساری کائنات
بیٹھے ہوئے ہیں دل میں مدینے لیے ہوئے
جلوؤں سے ہمکنار ہے بزمِ تصوّرات
حاجت روائے خلق کی رحمت ہے دستگیر
رکھیں نہ اب قدم مری راہوں میں مشکلات
اَب تو یہ جلوہ گاہ ِ رسول کریم ہے
اتنا حسین کبھی نہ رہا عرصۂ حیات
بیٹھے ہیں اور دیدہ و دل فرشِ راہ ہیں
اے کاش ہو اِدھر بھی تِری چشم ِ التفات
زاہد یہ راز تیری سمجھ میں نہ آئے گا
تو ہم سے پوچھ اُن کے عطاؤ کرم کی بات
دیدار ِ کبریا کی ضمانت ہے جن کی دید
آئینہ جمالِ الہٰی ہے اُن کی ذات
ذرّوں کو آفتاب کا ہم سر بنا دیا
جِس سمت بڑھ گیا ہے تمہارے کرم کا ہاتھ
مر جائیں گے سکون سے بس اس امید پر
دیکھیں گے ہم لحد میں تمہاری تجلیّات
پتھر بھی ہمکلام شجر بھی ہیں ہمکلام
اللہ رے ان کے حُسن ِ تکلم کے معجزات
اِک نسبت ِ حضور ہے سب کچھ مرے لیے
کافی ہے یہ سہارا ہی خاؔلد پئے نجات