فیض سرکار کا نِرالا ہے
نام بھی اُن کا لاج والا ہے
ان کے ہی دم قدم کی برکت سے
بزمِ کونین میں اُجالا ہے
رحمت لقب ہے اور جو بیکس نواز ہے
مجھ کو تو بس اسی کی غلامی پہ ناز ہے
معیار ِ بندگی ہے انہیں کی ہر اک ادا
عشق رسول ِ پاک ہی روح ِ نماز ہے
از فرش تابہ عرش ہے معراج ہی کی دھوم
کیا رو بروئے آئینہ آئینہ ساز ہے
میرا مشاہدہ بھی ہے اور تجربہ بھی ہے
جو آپ کا غلام ہے وہ سرفراز ہے
حالات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن ہوں مطمئن
ہے لاج کس کے ہاتھ وہ بندہ نواز ہے
کوئی بھی میرا غیر نہیں کائنات میں
یہ نسبت ِ رسول محبت نواز ہے
صدقہ ہے آپ کا کہ وہ ہم سے بھی ہے قریب
ورنہ خدائے پاک بڑا بے نیاز ہے
اسے ادعائے نسبتِ سرکار ہوشیار
کو تاہئی عمل کا بھلا کیا جواز ہے
خاؔلد اگر ملا تو ملا شغل نعت سے
مقبول بار گاہ خدا جو گداز ہے