رِضائے غوث احمد کی رِضا ہے
رضا احمد کی مرضی ِخدا ہے
کمالات و علوم مصطفیٰ سے
شہ جیلاں تجھے حصہ ملا ہے
تو آئینہ جمال مصطفیٰ کا
تو حق گو حق شناس و حق نماہے
جناب مصطفیٰ ظل خدا ہیں
تو ظل مصطفیٰ نور خدا ہے
ترے ہم ہوچکے تو ہے ہمارا
خداکا تو ہے اور تیرا خدا ہے
جو منکر ہے ترا وہ حق کا منکر
جو بندہ ہےترا عبدِ خدا ہے
ترا منگتا ہے مقبول الہٰی
ترے منکر پہ قہر کبریا ہے
محی الدین نہ کیوں ہو نام تیرا
کہ تو نے دین حق زندہ کیا ہے
کوئی بغداد والے سے یہ کہہ دے
کہ وقت اسلام پر آکر پڑا ہے
کوئی ہو اس طرف رحمت کا پھیرا
کہ بندہ راہ تیری تک رہا ہے
کدھر ہو قادری دولھا کدھر ہو
یہ ہر مجرم کے لب پر التجا ہے
شرف کس سے بیاں ہو تیرے سر کا
ولی کا تاج تیرا نقش ِپاہے
قدتیرا لیا ہے جس نے سرپر
وہ بے شبہہ ولی ِباخدا ہے
نہ کیوں ہوں ہند کے سلطان خواجہ
کہ آنکھوں پر قدم تیرا لیا ہے
ولی کہتے ہیں جن کو ہیں رعیت
شہ بغداد شاہِ اولیا ہے
تو ہے وہ پھول باغ مصطفیٰ کا
کہ خوشبو سے تری عالم بسا ہے
تو زہر اوعلی کا نورِ عینین
تو شمع ِبزم ِشاہ ِکربلا ہے
حسن کے پھول مہکا تجھ سے بغداد
حسینی عطر تو سب میں بسا ہے
شہید عشق کر رنگت رچا دے
کہ تو اِبن ِشہیدِ کربلا ہے
سلاطین ِجہاں ہیں اس کے منگتا
جو تیرے آستانے کا گدا ہے
مریضانِ جہاں کی فضل رب سے
تمہارے ہاتھ میں کامل دوا ہے
شفا چاہو تو جلد آؤ مریضو
در غوث الوریٰ دارُالشِّفا ہے
لگا ہے دل غلاموں کا ٹھکانے
مریدی لا تخف جب سے سنا ہے
ترے دربار پر انوار سے غوث
کوئی بھی لوٹ کر خالی پھرا ہے
جو دم میں چور کو ابدال کردے
وہ رتبہ غوث اعظم کو ملا ہے
جہاں پھیلادے جھولی انکا منگتا
وہیں موجود داتا کی عطا ہے
ہماری مشکلیں آسان کردے
کہ تو ابن علی مشکل کشا ہے
مٹا دے زور اَعدائے لعیں کا
کہ تو ابنِ علی شیرِخداہے
جودربارِالٰہی میں ہوپُرسش
تو کہہ دینا کہ یہ بند مرا ہے
عمل والے تو ہیں نازاں عمل پر
مجھے یا غوث تیرا آسرا ہے
بلاؤں میں گھِرا ہے تیرا بندہ
خبر لے غوث تیرا آسرا ہے
بھنور میں پھنس گیا میرا سفینہ
مدد فرما کہ تیرا آسرا ہے
نکیرین آگئے میری لحد میں
مرے غوث اب تو تیرا آسرا ہے
ہے نیک و بد کی پرسش اور میں عاصی
مرے غوث اب تو تیرا آسرا ہے
سیہ ہیں نامۂ اعمال میرے
مرے غوث آج تیرا آسرا ہے
میں مجرم اور دربار عدالت
مرے غوث آج ترا آسرا ہے
وہی کر جو مرے حق میں ہو بہتر
کہ تو شاہ عطا بحرِ سخا ہے
غلاموں کا نہ کیوں ہو پار بیڑا
کہ ان کے ہاتھ میں دامن ترا ہے
گلی ہو غوث کی اور میرا بستر
الہٰی بس یہ اپنی التجا ہے
جمؔیل قادری پھیلادے جھولی
کہ ان کے در سے باڑا بٹ رہا ہے
قبالۂ بخشش