/ Friday, 14 March,2025


روتا ہے نہ ہنستا ہے سنتا نہ بہلتا ہے





روتا ہے نہ ہنستا ہے سنتا نہ بہلتا ہے
طفل دل ناداں بھی کیا خوب مچلتا ہے
وہ پیش نظر ہے جب کیوں اشک ہے آنکھوں میں
کھلتے ہیں کہاں تارے جب مہر نکلتا ہے
وہ دیکھ نہیں سکتے آنسو مری آنکھوں میں
شعلے کا جگر گویا شبنم سے دہلتا ہے
یہ کبر نہیں اچھا نخوت کے پرستارو
مہتاب بھی بجھتا ہے خورشید بھی ڈھلتا ہے
اس سمت کھنکتے ہیں ساغر ید ساقی میں
اس سمت دل میکش رہ رہ کے اچھلتا ہے
اک میرا نشیمن ہی تاراج زمانہ تھا
سنتے میرا گلشن اب پھولتا پھلتا ہے
پنہاں ہے سکوں اخؔتر تاریک نظاروں میں
ہر چشمۂ حیوانی ظلمت سے ابلتا ہے