روتا ہے نہ ہنستا ہے سنتا نہ بہلتا ہے
طفل دل ناداں بھی کیا خوب مچلتا ہے
وہ پیش نظر ہے جب کیوں اشک ہے آنکھوں میں
کھلتے ہیں کہاں تارے جب مہر نکلتا ہے
وہ دیکھ نہیں سکتے آنسو مری آنکھوں میں
شعلے کا جگر گویا شبنم سے دہلتا ہے
یہ کبر نہیں اچھا نخوت کے پرستارو
مہتاب بھی بجھتا ہے خورشید بھی ڈھلتا ہے
اس سمت کھنکتے ہیں ساغر ید ساقی میں
اس سمت دل میکش رہ رہ کے اچھلتا ہے
اک میرا نشیمن ہی تاراج زمانہ تھا
سنتے میرا گلشن اب پھولتا پھلتا ہے
پنہاں ہے سکوں اخؔتر تاریک نظاروں میں
ہر چشمۂ حیوانی ظلمت سے ابلتا ہے