/ Friday, 14 March,2025


ساحل کا تصور آتے ہی دوڑا ہوا ساحل آجائے





تضمین

ساحل کا تصور آتے ہی دوڑا ہوا ساحل آجائے
لب آشنا حرکت سے بھی نہ ہوں اور زیست کا حاصل آجائے
خاموش زباں بھی خشک رہے اور ساقی محفل آجائے
اتنی تو کشش دل میں میرے اے جذبہ کامل آجائے
جب خواہش منزل پیدا ہو خود سامنے منزل آجائے
تسلیم کہ شیوہ حسن کا ہے خوشیوں میں بھی رنگ غم بھرنا
مانا کی حسینوں کی عادت ہے زخم پہ بھی نشتر دھرنا
دربار حسیناں میں پھر بھی کہتا ہے یہ آنکھوں کا جھرنا
اے شمع قسم پروانوں کی اتا تو مری خاطر کرنا
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آجائے
مجھ سوختہ جاں پہ چل ہی گیا افکار زمانہ کا افسوں
میں رنج و محن کا مسکن ہوں میں درد و الم کا سنگم ہوں
سن ’گیسوئے عنبربار‘ سن اے ’رخسار حسین‘ چشم میگوں‘
میں جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے لازم ہے جب تم پہ مرا دل آجائے
اے اخؔتر خستہ قلب و جگر شاید ہے اسی کا نام الفت
گفتار کی جرأت کرتا ہوں جب ساتھ نہیں دیتی ہمت
گرضبط کی جانب بڑھتا ہوں روٹھی نظر آتی ہے طاقت
گو لاکھ ارادے کرتا ہوں سب راز دلی کہدوں وحشت
کمبخت زباں کھلتی ہی نہیں جب سامنے قاتل آجائے