تضمین
ساحل کا تصور آتے ہی دوڑا ہوا ساحل آجائے
لب آشنا حرکت سے بھی نہ ہوں اور زیست کا حاصل آجائے
خاموش زباں بھی خشک رہے اور ساقی محفل آجائے
اتنی تو کشش دل میں میرے اے جذبہ کامل آجائے
جب خواہش منزل پیدا ہو خود سامنے منزل آجائے
تسلیم کہ شیوہ حسن کا ہے خوشیوں میں بھی رنگ غم بھرنا
مانا کی حسینوں کی عادت ہے زخم پہ بھی نشتر دھرنا
دربار حسیناں میں پھر بھی کہتا ہے یہ آنکھوں کا جھرنا
اے شمع قسم پروانوں کی اتا تو مری خاطر کرنا
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آجائے
مجھ سوختہ جاں پہ چل ہی گیا افکار زمانہ کا افسوں
میں رنج و محن کا مسکن ہوں میں درد و الم کا سنگم ہوں
سن ’گیسوئے عنبربار‘ سن اے ’رخسار حسین‘ چشم میگوں‘
میں جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے لازم ہے جب تم پہ مرا دل آجائے
اے اخؔتر خستہ قلب و جگر شاید ہے اسی کا نام الفت
گفتار کی جرأت کرتا ہوں جب ساتھ نہیں دیتی ہمت
گرضبط کی جانب بڑھتا ہوں روٹھی نظر آتی ہے طاقت
گو لاکھ ارادے کرتا ہوں سب راز دلی کہدوں وحشت
کمبخت زباں کھلتی ہی نہیں جب سامنے قاتل آجائے