ساقئی کوثر مراجب میر میخانہ بنا
چاند و سورج خم بنے ہر نجم پیمانہ بنا
حسن فطرت کے ہر اک جلوے سے بیگانہ بنا
دل بڑا ہشیار تھا اس در کا دیوانہ بنا
اس بہانے ہی سے جا پہنچوں لب اعجاز تک
یاالہی خاک کر کے مجھ کو پیمانہ بنا
اپنے عقل و ہوش کھونے کا صلہ مل ہی گیا
میرا افسانہ سراپا ان کا افسانہ بنا
اللہ اللہ رفعت اشک غمِ ہجر نبیﷺ
جونہی ٹپکا آنکھ سے تسبیح کا دانہ بنا
آج بھی سورج پلٹ سکتا ہے تیرے واسطے
اپنے دل کو الفت احمد کا کاشانہ بنا
چاند کی رفعت کو چھولینا کہاں کی عقل ہے
عقل یہ ہے چاند کو خود اپنا دیوانہ بنا
میرے دل میں حب احمد کے ہیں گل بوٹے کھلے
اب اسے کعبہ سمجھ واعظ کہ بت خانہ بنا
جام و ساغر سے بھی جائیگی کہیں تشنہ لبی
جرعۂ دست کرم کو میرا پیمانہ بنا
جانے کتنی ٹھوکریں کھاتا ہوا آیا ہوں میں
مجھ کو محروم تمنا میرے مولیٰ نہ بنا
ہاتھ ملتی رہ گئی رنگینئ حسنِ مجاز
دل مرا شمع رخ احمد کا پروانہ بنا
دھو کے اپنے نطق کو مدح نبی کے آب سے
اپنی ہر ہر بات اے اخؔتر حکیمانہ بنا