/ Thursday, 13 March,2025


صبا دھوم کیسی یہ گھر گھر مچی ہے





’’چادر‘‘

صبا دھوم کیسی یہ گھر گھر مچی ہے
یہ کیسی مسرت ہے کیسی خوشی ہے
یہ کس مرد حق بیں سے ملنے چلی ہے
یہ کس کے لئے آج دلہن بنی ہے
کہ چادر بڑے کرو فر سے اٹھی ہے
کہیں رضویوؔں کی دُر افشانیاں ہیں
کہیں نوریوؔں کی در خشانیاں ہیں
کہیں قاسمیوؔں کی تابانیاں ہیں
غرض ہر طرف طرفہ سامانیاں ہیں
کہ عُرس ابوالقاسم احمدی ہے
لگا کر حنائے گلستانِ قاسؔم
چڑھا کر مئے جامِ عرفانِ قاسؔم
سنگھاتی ہوئی بوئے بستانِ قاسؔم
دکھاتی ہوئی رنگ دامانِ قاسؔم
نسیم سحر مست ہوکر چلی ہے
سماں کیا ہے رحمت کا آکر تو دیکھو
نگاہِ بصیرت اٹھا کر تو دیکھو
نزولِ ملائک کا منظر تو دیکھو
ذرا شاہِ قاسم کی چادر تو دیکھو
جِلو میں یہ کس کس کو لے کر بڑھی ہے
کبھی شکوۂِ جور و بیداد کرنا
کبھی حق تعالیٰ سے فریاد کرنا
کبھی ذکرِ سرکار بغداد﷜ کرنا
کبھی یا علی﷜ کہہ کے دل شاد کرنا
کبھی جوش میں نعرۂ یانبیﷺ ہے
مئے جام وحدت پئیں اور پلائیں
محبت کے نغمے سنیں اور سنائیں
ارادت کی آنکھوں سے اس کو لگائیں
چلو کچھ عقیدت کے موتی چڑھائیں
یہ چادر نہیں حُلّۂ قاسمی ہے
زمیں پر پہنچنے لگے ماہ پارے
اترنے لگے آسماں سے ستارے
درِ شاہ قاسم پہ ہیں جمع سارے
نقیبوں کا ہے شور غم ہوں کنارے
کہ رحمت یہاں بوندیاں بانٹتی ہے
کسی کی خوشامد نہ درکار ہوگی
وہ چشم الطاف سرکار ہوگی
گناہوں کی میرے خریدار ہوگی
یقیں ہے کہ رحمت طرفدار ہوگی
کہ محشر میں حامی مرا شاہؔ جی ہے
بہت ہوچکی شرم و غیرت کی خواری
بہت لے چکے لطفِ باد بہاری
بہت کرچکے جام و مینا سے یاری
مسلمانو! کبتک یہ غفلت شعاری
خدارا اٹھو اب سحر ہوچکی ہے
وہ کرتے ہی کیا رنج و غم کا مداوا
تمہیں لیڈروں نے تو اور مار ڈالا
نہ تہذیب یورپ نے تم کو سنوارا
مرے دوستو! یہ تو سوچو خدارا
مصیبت یہ کیوں تم پہ آکے پڑی ہے
دکھا دو زمانے کو دینی حمّیت
وگرنہ ہوا خونِ ناموس مِلّت
بڑھو آگے! زیر لوائے شریعت
کھلی ہے ابھی شاہراہ حقیقت
چلے آؤ رحمت ابھی بٹ رہی ہے
طواغیتِ کثرت کو ڈھاتی ہے چادر
جماعت کے معنیٰ بتاتی ہے چادر
عزیزو! مسلماں بناتی ہے چادر
تمہیں راہ عرفاں دکھاتی ہے چادر
اسی راہ میں راحت سرمدی ہے
خود اپنے جنوں کا نظارا کریں گے
تماشائی بن کر تماشا کریں گے
خدا جانے کیا ہوگا کیا کیا کریں گے
خلیؔل ایک دن قصد پورا کریں گے
مدینے چلیں گے اگر زندگی ہے