صبر و رضا و صدق کے پیکر حسن میاں
نوری میاں کے نور کا مظہر حسن میاں
ایسا کرم ہے آپ کا سب پر حسن میاں
ہے پرسکون ہر دلِ مضطر حسن میاں
وہ جس میں آب اسوۂ خیر البشر کی ہے
اک ایسا آئینہ ہیں سراسر حسن میاں
نور نگاہ زھرا ہیں ‘ لخت دل علی
قالِ علی و آل پیمبر ‘ حسن میاں
اولادِ باب علم ہیں اور آلِ شہرِ علم
ہیں علم و آگہی کا سمندر حسن میاں
ان کی مہک سے سارا چمن عطر بیز ہے
ہیں باغِ قادری کے گل تر حسن میاں
ہیں چرخِ معرفت کے وہ رخشندہ آفتاب
شاہؔ جی میاں کا ناز ہیں حیدر حسن میاں
واللہ فخر و ناز محمدؔ میاں ہیں وہ
ہیں آلِ مصطفیٰﷺ کے جو دلبر حسن میاں
مارہرہ و بریلی کا ہر ایک ماہتاب
ہے آپ کی ضیاء سے منور حسن میاں
بس اک نگاہ لطف سے مٹتی ہے تشنگی
ہیں تشنگان شوق کے محور حسن میاں
جس نے ہمیں کیا غم دوراں سے بے نیاز
ہو وہ نگاہ لطف مکرر حسن میاں
منزل کی مشکلات کا کیوں مجھ کو خوف ہو
ہر کام پر ہیں جب مرے راہبر حسن میاں
دنیا کی ہر بلا سے وہ مامون ہوگیا
جو آگیا ہے آپ کے در پر حسن میاں
وہ گردش زمانہ سے گھبرائے کس لئے
حامی ہوں جس کے مصطفیٰ حیدر حسن میاں
مفتی خؔلیل آپ کے جلووں کا آئینہ
اور آپ ان کے علم کا مظہر حسن میاں
اس خار زار ہستی میں ہر اک مقام پر
ہیں گل بداماں آپ کے چاکر حسن میاں
نظؔمؔی میاں کے حُسْن میں حُسْنِ حَسَؔنْ کے ساتھ
شامل ہے حسن و شان برادر حسن میاں
بے شک امیؔن و اشؔرف و افؔضؔل نجیؔب ہیں
ہیں یہ جو آپ کے مہ و اختر حسن میاں
میں نے جہاں بھی جب بھی پکارا آپ کو
کی دست گیری ہے وہیں آکر حسن میاں
بخشا ہے آپ نے جو امؔین و نجیؔب کو
مجھ کو بھی ہو عطا وہی ساغر حسن میاں
حاؔفظ مزا تو جب ہے کہ یوں ہو بسر حیات
دل میں حسن میاں ہوں تو لب پر حسن میاں
(۲۰ اکتوبر ۱۹۹۵ء)