سلامٌ علیک اے حبیبِ الٰہی
سلامٌ علیک اے رسالت نہ پاہی
سلامٌ علیک اے مہِ برجِ رحمت
سلامٌ علیک اے درِ دُرجِ رحمت
سلامٌ علیک اے سنراوارِ تحسیں
مناقب تمہارا ہے طٰہٰ و یاسیں
سلامٌ علیک اے شہِ دین و دنیا
اگر تم نہ ہوتے، کوئی بھی نہ ہوتا
سلامٌ علیک اے خدا کے پیارے
قیامت میں ہم عاصیوں کے سہارے
سلامٌ علیک اے خبردارِ اُمّت
یہاں اور وہاں آپ غم خوارِ اُمّت
درود آپ پر اور سلام ِ خُدا ہو
قیامت تلک بے حد و انتہا ہو
سنا واہ کیسا یہ جاں بخش مژدہ
کہ مژدہ نہیں کوئی اُس سے زیادہ
کہ جو اُمتی سرورِ انبیا کا
درود اور تسلیم ہے عرض کرتا
تو اُس محفلِ خاصِ نور و ضیا میں
حضورِ جنابِ رسولِ خدا میں
بیاں ہونا ہے اُس کے نام و نشاں کا
کیا جاتا ہے ذکر صلوات خواں کا
سنو اور بھی، اے محبو! بشارت
کہ تھی جاوداں آپ کی خاص عادت
کہ جو کوئی کرتا سلام اُن کو آ کے
جوابِ سلام اُس کو فی الفور دیتے
یہاں بھی جوابِ سلامِ مصلّی
یقیں ہے کہ آئے بنامِ مصلّی
عجب، دوستو! یہ تفاخر کی جا ہے
کہ جس کے لیے پاسخِ مصطفیٰ ہے
اگر عمر بھر ہم سلام اُن پہ بھجیں
اور اُس کا جواب بھی اُن سے سن لیں
جواب ایک وہ کیا ہے وافی ہمیں ہے
سبھی دین و دنیا میں کافی ہمیں ہے
بر آئیں مطالب، مقاصد تمامی
طفیلِ عنایات خیرالانامی
سعادت کوئی اس سے برتر نہیں ہے
کرامت کوئی اس کی ہمسر نہیں ہے
یہ اَخلاقِ اعظم تھے خیرالورا کے
کہ کرتے سلام آپ لوگوں سے آگے
کوئی پیش دستی نہ کرتا نبی سے
مقدم تھے تسلیم میں وہ سبھی سے
جوابِ سلامِ غریبانِ اُمّت
بھلا کس طرح اب نہ ہوگا عنایت
وہاں سے جواب ایک بھی، اے کفایت!
تمامی مہمات کو ہے کفایت
بیاں کرتے یوں واقفانِ خبر ہیں
کہ وہ جو مَلَک کاتبِ خیر و شر ہیں
گناہانِ مردِ مصلّی کو بے شک
نہیں لکھتے ہیں وہ مَلَک تین دن تک
دُرود اک عجب نسخۂ کیمیا ہے
کہ پڑھنے سے جس کے یہ کچھ فائدہ ہے
درود اور ہے یہ بھی برکت
چھڑاتا ہے یہ ورد غیبت کی عادت
درود اور جو شخص پڑھتا رہے گا
اُسے حشر میں عرش سائے میں لے گا
عجب اُس کی قسمت کہ روزِ قیامت
ملے عرش کا جس کو ظلِّ کرامت
ترازو جو واں ہونے والی نصب ہے
وہ جائے خطر ہے، مقامِ تعب ہے
وہاں بھی گراں ہوگا پلّہ اُسی کا
درود آپ پر جو کہ پڑھتا رہے گا
ہوئی اور مذکور یہ بھی حقیقت
کہ روزِ قیامت بوقتِ عدالت
حضورِ خدائی زمین و زماں میں
کسی شخص کو لائے گی اُس مکاں میں
فرشتوں کو ہوئے گا یہ حکم صادر
کہ تم نے کیا ہے جو یہ شخص حاضر
اِدھر اِس کا ویوانِ اعمال لاؤ
سبھی دفتر حال اِس کا دکھاؤ
فرشتے جو ہوئیں گے اُس وقت حاضر
تو دیکھیں گے اُس میں سراسر کبائر
تو اُس دم وہ عاصی گُنہ گار بندہ
نہایت ہے معْموم و محزون ہوگا
رکھیں گے جو میزاں میں اعمال اُس کے
تو پلّہ جھکے گا بہت وزنِ بد سے
نِکوئی کا پلّہ بہت ہوگا ہلکا
کہ واں وزن ہوگا نہ حُسنِ عمل کا
لرزنے لگے گا وہ بدکار عاصی
جو دیکھے گا اپنی خطا و معاصی
فرشے وہاں آئیں گے مستعد ہو
کہ داخل کریں جلد دوزخ میں اُس کو
کہ نا گاہ اک مردِ زیبا شمائل
کہ ہو جس کے مُنھ سے خجل ماہِ کامل
تجلّی کا عالَم جبیں سے قدم تک
منوّر مکرّم وہ روئے مبارک
وہ عارض کی خوبی وہ گیسو کا عالَم
وہ عینِ حیا چشم و ابرو کا عالَم
وہ حُسنِ تبسم لبوں میں ہُویدا
ہر انداز سے لاکھ اعجاز پیدا
وہ صَلِّ عَلٰی جلوۂ قدّ و قامت
کہ جانِ قیامت پہ لائے قیامت
عیاں چال سے صاف رفتارِ رحمت
وہ ہر ہر قدم نورِ اَنوارِ رحمت
غرض آن کر وہ خراماں خراماں
کھڑے ہوں گے یک بار نزدیکِ میزاں
وہ ہلکا جو ہو اُس کے میزاں کا پلّہ
رکھیں اُس میں کاغذ کا چھوٹا سا پرچہ
وہیں نیک کاموں کا پلّہ گراں ہو
رہائی کا ساماں اُس کی عیاں ہو
جو دیکھے وہ اس مرحمت کا تماشا
رہے دنگ، حیران، حیرت زدہ سا
کہا کون آئے تھے یہ ذاتِ عالی
کہ مجھ کو حیاتِ ابد آج بخشی
فرشتے کہیں گے یہ خیر الورا سے
رسولِ خُدا خاتمِ انبیا سے
یہ پرچہ ترازو میں جو رکھ دیا ہے
کہ جس نے گراں سنگ پلّہ کیا ہے
یہ پرچہ وہی کاغذِ با صفا تھا
کہ تو نے درود ایک اِس میں لکھا تھا
لکھا عمر بھر میں فقط ایک نوبت
ملی جس کے بدلے رہائی کی دولت
غرض اُس کو جنّت میں داخل کریں گے
سبھی عیش و عشرت کا سامان دیں گے
ہوا تھا دُرودِ مبارک کا کاتب
ملے اُس کے بدلے یہ عالی مَراتب
لکھا اور یہ وصفِ صلوات خواں ہے
کہ ہر طرح سے اُس کو امن و اماں ہے
قیامت کی بھی تشنگی سے نڈر ہے
دہن اُس کا واں سیر و سیراب تر ہے
جو پائے گا وہ عشرت و عیشِ جنّت
تو اُس کے لیے ہوگی حوروں کی کژت
بہت اُس کو عزت کا ساماں ملے گا
ملے گی اُسے ثروتِ دین و دنیا
حصولِ سعادت بھی اُس کے لیے ہے
درودِ ہدایت بھی اُس کے لیے ہے
ہدایت، صلاحیت و رشدِ وافی
سبھی کچھ شرف ہے نصیبِ مصلی
پسِ نامِ حق یہ جو صلِّ علٰی ہے
تو اُس کا بہت ہی بڑا فائدہ ہے
کہ ہے پہلے نامِ خداوندِ اکبر
درود اس سے پیچھے جنابِ نبیﷺ پر
سپاس الٰہی بھی ہے اس سے پیدا
اس عنواں سے ہے شکر اُس کا ہویدا
درودوں کے الفاظ سے ہے نمایاں
کہ ہے رفعتِ شانِ حضرت کا خواہاں
سوال و طلب یہ جو ہے کبریا سے
وہ راضی ہے ایسے سوال و دعا سے
یہ بے شبہ ایسا سوال و طلب ہے
کہ ہر طرح سے موجِبِ حُبِ رب ہے
نبی کو بھی اُس شخص سے دوستی ہے
کہ جو واصفِ جاہ و شانِ نبی ہے
اگر کوئی صلوات کو کر کے شامل
ہوا حق تعالیٰ سے حاجت کا سائل
تو وہ بس صلاۃِ نبی کے سبب سے
مقاصد کو پائے گا درگاہِ رب سے
ہوا قابلِ فضلِ خاصِ الٰہی
طفیلِ صلاۃِ رسالت پناہی
کیا جو وسیلہ رسولِ خدا کا
ہوا مستحق وہ قبولِ دعا کا
یہاں اور ہے ایک برہانِ اظہر
کہ صدرِ درودِ مبارک میں اکثر
مقدّم ہے اسِمِ جنابِ الٰہی
کہ ہے بس وہی لائقِ بادشاہی
یہی اَللّٰھُمَّ کہ ہے اسمِ ذاتی
ہے مِرآتِ اَسمائے وصفی صفاتی
ہوا اہلِ عرفاں سے منقول ایسا
کہ جو شخص اَللّٰھُمَّ ہے کہتا
تو گویا باَسمائے حسنیٰ تمامی
بیادِ خدا اُس نے کی خوش کلامی
ہوا اب تو لازم یہ سب اہلِ دیں پر
کہ ہیں وہ فدا سیّد المرسلین پر
کہ کرتے رہیں اس عبادت کی کثرت
کہ ہے نام جس کا درودِ تحیت
نہ ہوں اس عمل میں وہ زنہار قاصر
کہ ہے اس میں واللہ کیا فیض حاضر
شمارِ عدد کچھ وہ مخصوص کر کے
درودِ مبارک رہیں روز پڑھتے
یہ ہدیہ کریں وہ بطرزِ دوامی
روانہ بدربارِ خیرالانامی
شمارِ ہزار اس جگہ معمد ہے
کہ اعداد میں معتبر مستند ہے
جو اتنا نہ ہو، پانسو بار ہو تو
کہ ہے رتبۂ اکتفا اس عدد کو
ہوا اور وارد حدیثِ نبیﷺ میں
حدیثِ نبی ہاشمی ابطحیﷺ میں
کہ کاموں میں وہ کام خیرالعمل ہے
کہ موقوف ہونے سے وہ بے خلل ہے
اگرچہ عمل وہ بہت مختصر ہو
مگر دائماً کوئی کرتا ہو اُس کو
یہ تھوڑا مگر اُس بڑے سے بڑا ہے
کہ موقوف اکثر وہ ہوتا رہا ہے
سنو اور یہ قول اہلِ ولا کا
محبانِ درگاہِ خیرالورا کا
کہ دس سو پڑھو تم درودِ مبارک
اگر کم پڑھو تو پڑھو پانچ سو تک
اگر پانچ سو بھی نہ ہوئے میسر
تو ہاں تین سو ہی پڑھو تم مقرر
اگر تین سو میں بھی ہوتے ہو قاصر
تو دو سو پڑھو جان و دل کر کے حاضر
پڑھو صبح کو سو تو پھر شام کو سو
ہوا اس طریقے سے ہر روز دو سو
ارادہ جو سونے کا ہنگامِ شب ہو
تو وردِ درودِ مبارک بَہ لب ہو
لکھا ہے کسی نے یہ کیا قولِ لائق
کہ جو کوئی مومن، بَہ اِخلاصِ صادق
ہوا جس عبادت پہ مصروفِ عادت
تو ہوتی ہے اُس کو وہ عادت عبادت
غرض جس پہ عادی ہوا کوئی انساں
وہ کام اُس کے اوپر ہوا سہل وآساں
سنو اس سے بھی اور جو سہل تر ہے
شرف میں زیادہ ہے گو مختصر ہے
کہ لفظِ ہزار آ گیا ہے جہاں پر
تو فضلِ ہزار اس جگہ ہے میسر
بَہ تحقیق طالب نے کی جب کہ کثرت
اور اُس ورد کے اُس کو آئی حلاوت
مذاقِ دل و جاں ہوا اُس کا شیریں
ہوئی روح کو تقویت اور تسکیں
ہوئی اُس کے باطن کو وہ بات حاصل
کہ ہے جیسے مشہور یہ قولِ قائل
فذکر الحبیب للمریض طبیب
کہ ذکرِ حبیب اِس طرح کا بجا ہے
مریضِ طلب کو طبیبِ دوا ہے
تعجب ہے کہ ایماں کی مدعی سے
کہ غافل رہے وہ درود نبی سے
درودِ مبارک عجب نورِ جاں ہے
کلیدِ درِ برکتِ بے کراں ہے
بدرگاہِ شاہنشہِ دین و دنیا
کسی نے کیا آ کے معروض ایسا
کہ میں وقت اپنے تمامی مقرر
کروں بہرِ صلواتِ خوانی مقرر
کیا اس کو ارشاد خیر الوراﷺ نے
حبیبِ خدا خاتمِ انبیاﷺ نے
کہ گر اس عمل کا تو عامل ہوا ہے
سبھی حلِ مشکل کو اکتفا ہے
کہ یعنی درودِ مبارک کی کثرت
مہمات سے بخشتی ہے فراغت
یہاں اور قولِ جنابِ علی ہے
کلامِ علی ابنِ عمِّ نبیﷺ ہے
سنو حاصلِ قولِ شیرِ خدا کا
علیِ ولی نائبِ مصطفیٰ کا
کہ جو کیفیت ہے بذکرِ الٰہی
نہ اس لطف کی دوسری چیز پائی
جو بالفرض اس ذکر سے مطلبِ دل
نہ ہوتا ہمیں جو کہ ہوتا ہے حاصل
تو اس کے عوض ہم تمامی عبادت
سمجھتے درودِ مبارک کی کثرت
غرض یہ کہ اس کا عوض اور بدلا
جو ہوتا درودِ مبارک ہے ہوتا
جو ہیں سالکانِ طریقِ ولایت
تو اُن کے لیے ہے یہ راہِ ہدایت
کہ اس کو فتوحِ عظیمہ سمجھ کر
زباں کو کریں معدنِ قند و شکر
مشائخ نے کی کیا ہی تقریرِ کامل
کہ ہوئے میسر نہ گر پیرِ کامل
تو اس وقت وردِ درودِ مبارک
مریدوں کو پیرِ طریقت ہیں بے شک
یہ ہے واسطہ اس طرح کا مکمل
کہ ہے طالبِ حق کو اک شیخ حاصل
مشایخ سے منقول یہ بھی ہوا ہے
کہ رتبہ عجب قُلْ ھُوَ اللہُ کا ہے
کہ اس کی قراءت سے جانا اَحَد کو
ہے پہچانا اللہ واحد صمد کو
ہوا اور یہ بھی مشائخ سے مروی
کہ تاثیرِ وردِ درود ایسی پائی
عجب اس کی کثرت نے جلوہ دکھایا
ہوئی باریابِ حضورِ معلا
ملی سرورِ انبیا کی حضوری
تمنّائے دل ہوگئی اس کی پوری
کہا ہے یہ شیخِ علی متقی نے
طبیبِ مریضانِ دردِ دلی نے
کہ صلوات کی جو کہ کثرت کرے گا
وہ حضرت نبیﷺ کی زیارت کرے گا
اُسے خواب میں ہو میسر یہ دولت
کہ ملتی ہے سوتے میں اکثر یہ دولت
وہ یا بخت بیدار ہو جس کسی کا
وہ بیداری میں چشم سے دیکھ لے گا
وہ حکمِ کبیر اک کتابِ سند ہے
وہاں ہے بہ تحقیق یہ مسئلہ طے
لکھا اور یہ عبدِ حق دہلوی نے
کہ وہ عبدِ وہاب جو متقی تھے
کیا ایسا ارشاد اس مقتدا نے
محبِّ جنابِ حبیبِ خدا نے
کہ وقتِ درود و سلام، اے عزیزو!
عجب بحر رحمت میں تم تیرتے ہو
کہا جب کہ اللہم زباِں سے
تو دیکھو کہاں تک گئی اس بیاں سے
وہ دریائے رحمت جو اللہ کے ہیں
بحارِ کرم اس شہنشاہ کے ہیں
وہاں مثلِ غواص غوطہ لگائے
دُر و گوہرِ بے بہا ہاتھ آئے
کہا جب کہ حضرت پہ صَلِّ اِلٰہِیْ
تو آئے بہ بحرِ رسالت پناہی
تمہیں لے گئی موجِ دریائے رحمت
لگے ہاتھ کیا کیا گہرہائے رحمت
کہا جب کہ صَلِّ عَلٰٓی اٰلِ اَحْمَد
تو آئی بدریائی اَفضالِ احمد
شمولِ صحابہ کیا جب یہاں پر
ہوئی بحر لطف و کرم کی شناور
غرض ایسے ایسے بحارِ عطا سے
نہ جاؤ گے مایوس تشنہ، پیاسے
کہ یاں ہر طرف مرحمت موج زن ہے
وہ ہر موج کوہِ معاصی شکن ہے
یہ رحمت کا قلزم جہاں جوش مارے
اساسِ گنہ بیخ و بن سے اُکھاڑے
ہمیں تو یقیں بل کہ حق الیقیں ہے
کہ جو واصفِ سیّد المرسلیں ہے
نہ دیکھے گا وہ عسرتِ دین و دنیا
روا اُس کی ہو حاجتِ دین و دنیا
مشایخ جو ہیں شاذلی خانداں کے
مشرف اُنھوں نے کیا اس بیاں سے
کہ پیرِ طریقت نہ ہو گر میسّر
تو کیجے درودِ مبارک کو رہبر
یہ اس طرح کا مرشِدِ پُر ضیا ہے
کہ طالب کے باطن کو دیتا جِلا ہے
درودِ نبیﷺ کا یہ ہے فیضِ کامل
نظر جس سے آتی ہے عرفاں کی منزل
بلا واسطہ سرورِ انبیا سے
مشرف وہ کرتا ہے نورِ ہدا سے
فیوضِ جنابِ نبیِ مکرم
دکھاتا ہے وردِ درودِ معظّم
محیطِ کراماتِ دریائے عرفاں
کہ ہیں عبدِ قادر وہ محبوبِ سبحاں
جنابِ سیادت نسب غوثِ اعظم
سپہرِ ولایت کے قطبِ مکرّم
بہارِ ریاضِ امامِ حسن ہیں
وہ سرمستِ صہبائے جامِ حسن ہیں
سپہدارِ میدانِ شیرِ الٰہی
سزاوارِ ایوانِ مشکل کشائی
وہ ہیں قطبِ افراد دور زماں کے
وہ غوثِ معظّم ہیں فریاد خواں کے
جہاں بہرہ ور اُن کے دستِ کرم سے
قوی پشت ہیں اولیا اس قدم سے
طریقہ یہ ہے آپ کے خانداں کا
کہ وہ خانداں فخر ہے سب جہاں کا
کہ جس نے کیا وردِ صلوات حاصل
عجب اُس کو حاصل ہوا فضلِ کامل
کہ بے واسطہ خاتمِ مرسلاں سے
مشرف ہوا نعمتِ جاوداں سے
سخاوت محدّث بڑا نامور ہے
کیا اُس نے اس نقل کو مشتہر ہے
سوا اُس کے بھی اور اہلِ خبر نے
لکھا راویانِ خجستہ سِیَر نے
کہ اک شخص تھا نام اُس کا محمد
وہ کرتا تھا اس کام میں کوشش و کد
معین درود اُس نے کچھ کر رکھا تھا
کہ ہنگامِ خفتن وہ تھا اُس کو پڑھتا
غرض ایک شب اُس نے پائی زیارت
جنابِ رسولِ خدا کی زیارت
وہ سوتے میں ناگاہ کیا دیکھتا ہے
کہ گھر میرا پُر نور روشن ہوا ہے
مِرے گھر میں ہیں آپ تشریف لائے
عجب شوکت و شانِ رحمت سے آئے
فروغ جمالِ مبارک سے اُس دم
ہوا میرے گھر میں تجلی کا عالَم
یہاں مدح خواں کب خموشی کی جا ہے
مقامِ سراپائے خیرالورا ہے