اپنے مستوں کی بھی کچھ تجھ کو خبر ہے ساقی
مجلسِ کیف تِری زیر و زبر ہے ساقی
اب نہ وہ دن ہیں نہ وہ شام و سحر ہے ساقی
بند مَے خانۂ فیضانِ نظر ہے ساقی
بات مت پوچھ غمِ عشق کے افسانوں کی
خاک چہروں پہ اڑا کرتی ہے ویرانوں کی
اب تو جنّت بھی ہے سرکار کی قربت بھی ہے
تِرے مولا کی تِرے حال پہ رحمت بھی ہے
زیبِ سر تاجِ شہہِ ملکِ ولایت بھی ہے
ہاتھ میں عالمِ جاوید کی دولت بھی ہے
جب سبھی کچھ ہے تو خیرات لٹا دے ساقی
چشمِ مخمور سے پھر جام پلا دے ساقی
تِرے دربار میں پھر شور ہے مے خواروں کا
حوصلہ تشنہ نہ رہ جائے وفا داروں کا
آ کے اب حال ذرا دیکھ لے بیماروں کا
واسطہ دیتے ہیں ساقی تِرے سرکاروں کا
بہرِ تسکین یہ تکلیف گوارا ہو جائے
آج تربت سے نکل آ کہ نظارا ہو جائے
اک نظر ڈال کے دنیا تہہ و بالا کر دے
بزمِ دل نورِ تجلی سے اجالا کر دے