/ Thursday, 13 March,2025


سراپا وہ صل علی آپ کا تھا





سراپا وہ صَلِّ عَلٰی آپ کا تھا
کہ ہر عضو حسنِ تجلی نما تھا

حبیبِ خدا کا جمالِ مکرم
سنراوارِ تحسین و حمد و ثنا تھا

جبینِ مصفّا میں حُسنِ مصفّا
ہلال اور ماہِ تمام ایک جا ہیں

بہارِ لطافت میں بے مثل و ثانی
گُلِ بے خزاں عارضِ مصطفیٰ تھا

مدوّر جو کہتی ہیں چہرے عالَم
وہ تدویر سے بھی ورآء الورا تھا

وہ صَلِّ عَلٰی گندمی رنگ اُن کا
کہ غازہ رخِ عالمِ نور کا تھا

چمکتا تھا کیا نورِ حُسنِ صباحت
فروغ ملاحت دمکتا ہوا تھا

مزیّن بَہ پیرایۂ اعتدالی
خوش اندام اندامِ خیرُ الورا تھا

وہ چشمِ مبارک کی روشن سیاہی
کہ سر چشمۂ نور جس کا گدا تھا

وہ دندان و لب غیرتِ وردِ ہر جاں
وہ حُسنِ تبسم کا عالَم نیا تھا

وہ بحر تبسم میں موجِ تبسم
کہ دریوزہ گر جس کا آبِ تقا تھا

وہ حُسنِ ادا کس زباں سے ادا ہو
تبسم میں اُن کے جو حُسنِ ادا تھا

کروں اُس شمائل کا کیا وصف، کاؔفی!
سراپا سبھی خوبیوں سے بھرا تھا

جنابِ نبی نے مبارک زباں سے
یہ فرمایا اُس مردِ صلوات خواں سے

کہ آ میرے نزدیک تو لا دہن کو
کہ دوں تیرے، اے شخص! بوسہ دہن کو

سبب اس کا یہ ہے کہ تو میرے اوپر
درود اور صلوات پڑھتا ہے اکثر


بیان ایسا کرتا ہے اپنا وہ راوی
کہ اُس وقت مجھ کو بہت شرم آئی

نہ دیکھا یہ رتبہ کچھ اپنے دہن کا
کہ لاؤں قریبِ دہانِ مصفّا

مجھے پاسِ آداب گو روکتا تھا
مگر ا
مرِ عالی بھی لانا بجا تھا

بجائے دہن اپنا رخسار لا کے
کیا سامنے سرورِ انبیا کے

مشرف ہوا بوسۂ شاہِ دیں سے
جنابِ نبی رحمت العالمیں سے

یکا یک اٹھا میں جو بیدار ہو کر
تو پایا سبھی اپنے گھر کو معطّر

مِرے گھر میں وہ نکہتِ جاں فزا تھی
کہ واں نکہتِ مشک بھی کم بہا تھی

رہی آٹھ دن تک یہ حالت حقیقت
کہ آتی تھی رخسار سے میرے نکہت

مہکتا تھا گھر اور رخسار میرا
ہوا واہ کیا بخت بیدار میرا

محبو! ذرا سوچنے کی یہ جا ہے
درودِ مبارک کا کیا مرتبہ ہے

کیا شیخ احمد نے مذکور ایسا
کہ شبلی ابوبکر کے پاس آیا

ابوبکر جس کا ’’مجاہد‘‘ لقب تھا
جو شبلی کو آتا ہوا اُس نے دیکھا

اٹھا سرو قد بہرِ تعظیمِ شبلی
بجا لایا عنوانِ تکریمِ شبلی

بہت کر کے اُلفت گلے سے لگایا
نہایت محبّت سے ماتھے کو چوما

یہاں قولِ اقلیسی اس طرح کا ہے
بیاں اُس محقق نے ایسا کیا ہے

کہ میں نے ابوبکر سے التجا کی
کہ یا سیّدی تم نے یہ بات کیا کی

سمجھیے کہ بغداد میں جو بشر ہے
وہ شبلی کو مجنون کہتا مگر ہے

کہا کرتے ہو تم بھی دیوانہ اُس کو
سبب ایسی توقیر کا کچھ بتاؤ

ابوبکر بولے کہ شبلی کی عزت
کہ کی آج میں نے بانواعِ اُلفت

یہ اپنی خوشی سے محبت نہیں کی
تبیعت یہ ہے سیّد المرسلیں کی

سنو اس حقیقت کا مذکور ہے یوں
کہ میں اس طرح خواب میں دیکھتا ہوں

کہ ہیں سرورِ انبیا جلوہ فرما
حضورِ مبارک میں شبلی بھی آیا

اٹھے دیکھ کر اُس کو ختمِ رسالت
ملاقات کی با کمالِ محبّت

میانِ دو چشم اس کے بوسہ دیا پھر
کیا عرض میں نے کہ کیا اس میں تھا سر

جواب ایسا مجھ کو دیا شاہ دیں نے
جنابِ نبی رحمت العالمیں نے

کہ شبلی کی یعنی یہ ٹھری ہے عادت
کہ پڑھ کر نماز اور ہوکر فراغت

پڑھا کرتا ہے یہ بطرز دوامی
لَقَدْ جَآءَ کُمْ کی یہ آیت تمامی:

لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ
اَنۡفُسِکُمْ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ
مَاعَنِتُّمْ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾

فَاِنۡ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ ٭۫ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاہُوَؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیۡمِ ﴿۱۲۹﴾٪


اِس آیت کو پڑھ کر کے وہ انتہا تک
پڑھا کرتا ہے پھر درودِ مبارک


غرض یہ کہ اُس پر جو یہ مرحمت ہے
یہی واسطہ موجبِ مکرمت ہے

لکھا ہے اس احوال کو مجدِ دیں نے
کیا ہے بیاں
شیخِ ا ہلِ یقیں نے

کہ تھا میرے ہم سائے میں کوئی رہتا
قضائے الٰہی سے وہ مر گیا تھا

غرض بعدِ رحلت پسِ چند مدّت
نظر آ گیا خواب میں ایک نوبت

سوال اُس سے میں نے کیا دیکھتے ہی
کہ کیا کیفیت قبر میں نے تو نے دیکھی

کہا اُس نے احوال کیا پوچھتے ہو
اگر پوچھتے ہو تو اب مجھ سے سن لو

کہ جس وقت آئے نکیر اور منکر
ہوا عرصۂ عافیت تنگ مجھ پر

عجب تنگیِ حال نے مُنھ دکھایا
عجب طرح کا حال در پیش آیا

وہ دہشت وہ وحشت وہ تنگی کا عالم
بجز صورتِ غم نہ تھا کوئی ہمدم

اس اَحوال کو دیکھ کر میں نے جانا
نہیں دین، ایمان سے مجھ کو بہرا

کہ ناگاہ مرقد میں اک شخص آیا
مکرم مبارک بروئے مصفا

نکیر اور منکر کھڑے تھے اُدھر کو
مصیبت کے عالم میں تھا میں اِدھر کو

کہ آتے ہی وہ مردِ زیبا شمائل
ہوا مجھ میں اور اُن فرشتوں میں حائل

سکھایا جواب اُن فرشتوں کا مجھ کو
کہ دے تو جواب اس طرح مستقل ہو

غرض میں ہوا جب کہ ثابت بَہ حجت
ہوئی میرے اُوپر سے زائل مصیبت

ہوا واہ کیا موردِ لطفِ باری
ہوئی کیا ہی آسان مشکل ہماری

جو میں نے یہ احسان و اکرام دیکھا
تو اس شخص سے حال و احوال پوچھا

کہ تم کون ہو اور آئے کہاں سے
کہ میں چھٹ گیا امتحاں کے مکاں سے

مجھے آپ نے ایسی حجت سکھائی
کہ دستِ ملائک سے پائی رہائی

یہ کہنے لگا مجھ سے وہ پاک پیکر
کہ صلوات کو تو جو پڑھتا تھا اکثر

تو وردِ درودِ نبی کے سبب سے
ملی ہے یہ صورت مجھے لطفِ رب سے

مِرا یہ تمامی وجودِ مصفا
نتیجہ ہے صلوات خوانی کا گویا

نہیں ہے ولادت مِری اُمّ و اب سے
بنا ہوں درودِ نبی کے سبب سے

تِرے ساتھ ہوں ہر جگہ، ہر مکاں پر
رہوں گا وہیں تو رہے گا جہاں پر

بَہ وقتِ مصیبت بَہ ہنگامِ شدّت
کروںگا تِری میں رفاقت معیت

کیا کعب احبار نے ذکر اِس کا
کہ موسیٰ نبی کو یہ پیغام آیا

کہ گر میرے مدّاح و حامد نہ ہوئیں
تو باراں کے قطرے فلک سے نہ برسیں

جماؤں زمیں پر نہ میں ایک دانہ
معطّل رکھوں اور سب کارخانہ

اگر تجھ کو اس بات کی ہے تمنّا
کہ میں تجھ سے نزدیک ہو جاؤں ایسا

کہ جیسے کلام و زباں متصل ہے
و یا کالبد اور جاں متصل ہے

و یا جس طرح چشم و نورِ بصر ہے
کہ ہر وقت اُنھیں قربتِ یک دگر ہے

کیا عرض موسیٰ نے، اے ربِّ عزت!
عطا مجھ کو ایسی ہی کیجے معیت

ہوا حکم گر یہ عطا مانگتا ہے
درودِ محمد سے ملتی عطا ہے

درود اُن کے اُوپر جو اکثر پڑھے گا
یہ سب نسبتِ قرب حاصل کرے گا

روایت ہوئی دوسری اور مروی
کہ موسیٰ کو پہنچا یہ حکمِ الٰہی

کہ گر تجھ کو منظور و مطلوب یہ ہو
کہ دیکھے نہ محشر کی تو تشنگی کو

تو پڑھیے محمد پہ صلوات اکثر
درودوں میں ہو صَرف اوقات اکثر

ابی بکر صدّیق سے ہے روایت
کہ کہتے ہیں وہ صدرِ بزمِ صداقت

کہ پڑھنا درود و تحیت نبی پر
گناہوں کو کرتا ہے نابود یک سَر

مٹاتا ہے جرم و گناہ اِس طرح سے
کہ آتش کو جس طرح پانی بہا دے

کہوں کیا سلامِ نبی کی فضیلت
کہ ثابت ہوئی اُس کی ایسی فضیلت

کہ ابلاغِ صلوات حضرت نبی پر
ہے بردے کے آزاد کرنے سے بہتر

کہوں وصف کیا حبِ خیرالورا کا
کہ ہیں حبِ احمد میں اوصاف کیا کیا

محبت نبی کی ہے کیا بے بدل شے
جہاد و غزا پر فضیلت اسے ہے

ہوا ہے یہ ثابت بیانِ انس سے
کہ جب دو مسلمان ہیں آپس میں ملتے

ملاقات کے وقت ہاتھوں کو اپنے
ملاتے ہیں وہ پنجۂ یک دگر سے

درود اور اُس وقت اپنے نبی پر
جو پڑھتے ہیں دونوں مسلماں برادر

جدا ہونے پاتے نہیں یک دگر سے
کہ جرم و گناہ اُن کےجاتے ہیں بخشے

گناہانِ اوّل گناہانِ آخر
سبھی بخش دیتا ہے خلّاقِ اکبر

روایت یہ منقول ہے بوالحسن سے
جنابِ علی شاہِ خیبر شکن سے

کہ سلطانِ دیں، سرورِ انبیا نے
کیا ایسا ارشاد خیر الورا نے

کہ جو حجِ اسلام کرنے کو آئے
ادا کر کے حج پھر وہ غزْوے کو جائے

تو ہے ایسے غزْوے کا یہ اجرِ کامل
کہ ہے چار سو حج سے غزوہ مقابل

غرض سُن کے اس بات کو وہ جماعت
نہ تھی جن کو حج اور غزْوے کی طاقت

ہوئے دل شکستہ وہ بے طاقتی سے
سُنی جب فضیلت یہ حضرت نبی سے

وہیں حکم آیا خدائے جہاں کا
جنابِ
شفیعِ قیامت کو ایسا

کہ جو کوئی بھیجے درودِ مبارک
تِرے اوپر اے میرے محبوب بے شک

وہ پہنچے گا ثواب و جزا کو
کیا چار سو بار گویا غزا کو

وہ ہر ایک غزْوے کا رتبہ ہے ایسا
عوض چار سو حج کا ہوتا ہے جیسا

کہا بو مظفر نے احوال اپنا
کہ میں اتفاقاً رہِ کعبہ بھولا

وہیں سامنے میرے دو شخص آئے
مجھے جادۂ راستہ پر وہ لائے

کہا میں نے تم کون ہو او عزیزو
مجھے اپنے نام و نشاں تو بتاؤ

کہا ایک نے خضر ہے نام میرا
یہ الیاس ہے دوسرا ساتھ والا

پھر اُن سے کہا میں نے یہ بھی بتادو
کہ دیکھا ہے تم نے رسولِ خدا کو

بیاں خضر و الیاس نے کی حقیقت
کہ کی ہے رسولِ خدا کی زیارت

کیا عرض پھر میں نے، اے رہنماؤ!
قسم ربِّ عزت کی دیتا ہوں تم کو

کہ جو کچھ جنابِ نبی سے سنا ہے
بیاں کیجیے مجھ سے وہ حال کیا ہے

اُنہوں نے کہا ہم نے ایسا سُنا تھا
جناب نبی سے کہ جو یوں کہے گا











صلی اللہ علی محمد

نفاق اُس سے ہو جائے گا یوں روانہ
کہ ہو پاک پانی سے اطرافِ خانہ

انھیں چار لفظوں کے یہ بھی فضائل
ہوئے ہیں بَہ اَسنادِ مذکور حاصل

کہ جو کوئی لائے گا اُن کو زباں پر
درِ رحمتِ حق کھلیں اس پہ ستّر

کہا خضر و الیاس نے اور یہ بھی
کہ تقریبِ اوقات ایسی ہوئے تھی

کہ یعنی کوئی جانبِ شام سے تھا
حضورِ حبیبِ الٰہی میں آیا

کیا غرض اس نے کہ غم خوارِ اُمّت
مِرا باپ ہے ناتواں کم بصارت
اُسے ضعفِ پیرانہ سالی ہے لاحق
نہیں آپ تک آنے جانے کے لائق

تمہارا ہے پر
اُس کو شوقِ زیارت
دل و جاں سے ہے محوِ ذوقِ زیارت

کیا ایسا ارشاد محبوبِ رب نے
کہ تِرا پدر سات شب اُس کو پڑھ لے

پڑھے یعنی ان چار لفظوں کو ہر شب
تو بر آئے گا باپ کا تیرے مطلب

میسر اُسے خواب میں ہو زیارت
مناسب ہے اب اس خبر کی روایت

غرض اُس نے ارشادِ خیر البشر سے
کیا جا کے اظہار اپنے پدر ہے

کیا باپ نے اُس کے اس کا وظیفہ
ہوا واہ مقبول کیسا وظیفہ

مشرف ہوا وہ حضوری کا سائل
ہوا خواب میں اُس کو دیدار حاصل

ہوئی اور مروی یہاں یہ روایت
کہ راوی نے کی ہے بیاں یہ روایت

کہ یعنی اگر محفلوں میں تم آؤ
و یا اُٹھ کے تم واں سے باہر کو جاؤ

کہو اس طرح سے بوقتِ نشستن
پڑھو اور یہ ہی بَہ ہنگامِ رفتن


بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد


موکل کو بھیجے گا واں ربِّ اکبر
رہے گا فرشتہ موکل وہ تم پر

نہ غیبت کسی کی وہاں پر کرو تم
نہ غیبت تمہاری کریں اور مردم

سنو مومنو یہ عجائب روایت
لکھی دہلوی شیخ نے کیا حکایت

کہ دیکھا تھا کعبے میں میں نے کسی کو
بسر کر رہا تھا وہ یوں زندگی کو

کبھی تو طوافِ حرم تھا وہ کرتا
صفا اور مروہ میں بھی دوڑتا تھا

تمامی مواقف مناسک میں حج کے
وہ تھا گرم کوشش خلوصِ دلی سے

کہ اطرافِ کعبہ میں آتا جہاں تھا
رسولِ خدا پر وہ صلوات خواں تھا

کہا کہنے والے نے او مردِ ناداں
دعائیں پڑھا کرتے ہیں اور کچھ یاں

یہاں کے لیے اور آئی دعا ہے
بھلا کب یہ صلوات خوانی کی جا ہے

جواب اُس نے ایسا دیا معترض کو
کہ ہے تو یہی بات کہتا جو ہے تو

و لیکن کیا میں نے ہی عہدِ کامل
کہ صلوات میں کچھ کروں گا نہ شامل

پڑھے جاؤں گا یعنی صلوات اکثر
جنابِ نبی خاتم المرسلیں پر

سبب اس کا یہ اور ہے یہ حقیقت
کہ میرے پدر کی ہوئی جب کہ رحلت

پسِ مرگ میں نے جو مُنھ اُس کا دیکھا
بَہ شکلِ حمار اُس کا چہرہ ہوا تھا

مجھے اِس طرح کا ہوا دیکھ کر غم
کہ میں سو گیا غم کی حالت میں اُس دم

مِرے بختِ بیدار نے کی جو یاری
حضوری ہوئی مجھ کو حضرت نبی کی

جو میں نے وہ پُر نور دیدار پایا
بَہ دامانِ خیرالورا ہاتھ لایا

شفاعت شفیعِ قیامت کی چاہی
کہ ہو باپ پر میرے فضلِ الٰہی

سبب ایسے جرم و خطا کا بھی پوچھا
کہ اُس کے لیے موجبِ مسخ کیا تھا

کیا مجھ کو حضرت نے ارشاد ایسا
کہ سود و رِبا باپ تھا تیرا کھاتا

خورندہ غرض سود کا جو کوئی ہے
جزا و سزا اُس بشر کی یہی ہے

مگر وقتِ خفتن بَہ وِردِ مقرر
درود ایک سو بار پڑھتا تھا مجھ پر

سو اس کے سبب سے بحالِ مصلّی
ہوئی ہے شفاعت مشفَّع نبی کی

زبانِ مبارک سے مژدہ یہ سن کے
ہوا جلد بیدار خوابِ گراں سے

جو مُنھ کھول کر باپ کا اپنے دیکھا
شبِ چار دَہ کا وہ گویا قمر تھا

غرض قبر میں بھی پس و دفنِ میّت
سنی ہاتفِ غیب سے یہ بشارت

کہ یہ باپ تیرا جو صلوات خواں تھا
رسولِ خدا پر تحیت رساں تھا

یہ اورادِ صلوات کا ہی سبب ہے
کہ یہ ہو گیا موردِ لطفِ رب ہے

کیا لکھنے والوں نے مرقوم ایسا
کہ اک مردِ صالح کسی شہر میں تھا

ہوئے تیس سو قرض دینار اُس پر
ہوا اس سبب سے وہ حیران مضطر

یہاں تک ہوا اس کے اوپر تقاضا
کہ دارالقضا تک یہ مقروض پہنچا

کہا اُس سے قاضی نے اے نیک طینت
تجھے میں مہینے کی دیتا ہوں مہلت

مہینے میں تو قرض اپنا ادا کر
یہ بارِ گراں رکھ نہ گردن کے اوپر

غرض مردِ صالح بدرگاہِ باری
ہوا گرم اظہار فریاد و زاری

وسیلہ درودِ مبارک کا کر کے
وہ خواہانِ مطلب تھا درگاہِ رب ہے

بَہ وِردِ درود اور آہ و فغاں میں
بسر اُس نے کیں بیس اور سات راتیں

شبِ بست و ہفتم وہ کیا دیکھتا ہے
کہ اُس سے کوئی شخص یوں کہہ رہا ہے

کہ ہے تیرے اُوپر جو قرضِ نمایاں
کیا حق تعالیٰ نے یوں اُس کا ساماں

کہ وہ جو وزیر ابنِ موسیٰ علی ہے
تِرے قرض کی اُس پہ تنخواہ کی ہے

علی ابنِ موسیٰ
سے جا کے بیاں کر
کہ ہے تجھ کو حکمِ جنابِ پیمبر

کہ دے تیس سو مجھ کو دنیار اس دم
یہی حکم کرتے ہیں سردارِ عالَم

یہ کہتا ہے صالح کہ جب خواب دیکھا
تو بس خرّم و شادماں ہو کے چونکا

مگر دل میں میرے یہ تشویش آئی
کہ جو مجھ سے وہ شخص مانگے گواہی

تو پھر کس کو لاؤں گا بہرِصداقت
صداقت نہ ہوگی تو ہوگی ندامت

اِسی فکر میں دوسری رات آئی
ہوئی پھر رسولِ خدا تک رسائی

کیا اوّلِ شب تھا ارشاد جیسا
کیا دوسری رات بھی حکم ویسا

مجھے پھر ہوئی فکرِ راہِ صداقت
کہ ہے کون میرا گواہِ صداقت

کہوں کیا کہ پھر تیسری رات میں بھی
وہی حال پایا وہی خواب دیکھی

کیا پھر بھی حضرت نے ارشاد مجھ کو
گیا کیوں نہیں ابنِ موسیٰ تلک تو

کیا میں نے معروض سلطانِ دیں سے
جنابِ نبی رحمت العالمیں سے

کہ میں ہوں نشان و علامت کا خواہاں
کہ روئے صداقت ہو جس سے نمایاں

جنابِ حبیبِ خدا نے یہ سن کر
یہ فرمایا ہو آفریں تیرے اُوپر

کہ تو ہے نشان و علامت کا طالب
قبولِ سخن پر صداقت کا طالب

اگر تجھ سے پوچھے علامت بتا دے
ہماری طرف سے یہ اُس کو پتا دے

کہ اے ابنِ موسیٰ یہ ہے تیری عادت
کہ ہوکر نمازِ سحر سے فراغت

یہاں تک کہ خورشید نکلے فلک پر
درودِ مبارک تو اٹھتا ہے پڑھ کر

معیّن ہی کی ہے یہ تعداد دو عدت
ہزار ایک پڑھتا ہے تو پانچ نوبت

اس اوراد کے وقت اے ابنِ موسیٰ
کلام و سخن تو نہیں اور کرتا

یہ ہدیہ جو تو بھیجتاجاوداں ہے
بجز عالم الغیب سب سے نہاں ہے

و یا وہ خبردار ہیں اس عمل سے
کہ ہیں کاتبِ خیروشر وہ فرشتے

کہا مردِ صالح نے جس وقت میں نے
ملاقات کی ابنِ موسیٰ سے جا کے

سبھی حال و احوال جو خواب کا تھا
بَہ تفصیل و تشریح اُس کو سنایا

ہوا شاد و خرّم وہ سن اس خبر کو
ہوا میرا مدّاح اور آفریں گو

اُسی وقت وہ نقد دینار لایا
کہ لے جلد کر تو ادا قرض اپنا

دیے اور بھی مجھ کو دینار اس نے
کہ ہم وزنِ دینارِ اوّل سے ہی تھے

کہا یہ جو ہوں تجھ کو دینار دیتا
یہ نفقہ وظیفہ سمجھ اپنے گھر کا

سہ بارہ دیے دینار مجھ کو
کہ دینارِ اوّل سے تھے ہم ترازو

کہ کر اس سے حاصل متاعِ تجارت
کہ ہو تجھ کو روزی سے یعنی فراغت

قسم اور مجھ کو یہ اُس نے دلائی
کہ ثابت رہے شیوۂ آشنائی

اگر تجھ کو حاجت کوئی پیش آئے
مناسب ہے تو مجھ کو آ کر سنائے

غرض وہ جو دینارِ اوّل دیے تھے
گیا پاس قاضی کے میں اُن کو لے کے

سبھی میں نے قصّہ بھی اپنا سنایا
پھر اس نے میرے مدّعی کو بلایا

کہا اس کے ذمّے جو ہے قرض تیرا
ادا میں کروں گا یہ ذمّہ ہے میرا

سنا جب کہ قاضی سے یہ مدّعی نے
کہا قرض میں بخشتا ہوں خوشی سے

وہ قاضی نے دینار جو لا رکھے تھے
کہا یہ خدا کی رضا کے لیے ہے

اب ان کو بھی او مردِ صالح اُٹھا لے
تجھے بخشتا ہوں، براہِ خدا، لے

بیاں کیجیے اور کیا فضائل
کہ ہوتے ہیں صلوات خوا نی سے حاصل

کوئی وقت ہو یا کوئی حال لاحق
ہر اوقات میں ہے یہ اوراد لائق

خصوصِ شبِ جمعہ صلوات پڑھنا
درود اور تسلیم ابلاغ کرنا

و یا روزِ آدینہ حضرت نبی پر
سلام اور صلوات کرنا مقرر

فضائل میں ہے اور روزوں سے بہتر
مراتب میں افضل مدارج میں اکبر

شرافت جو اس روز و شب کے لیے ہے
ثبوت اُس کا اخبار و آثار سے ہے

ورودِ روایت یہاں اور بھی ہیں
ثبوتِ کلامِ جنابِ نبی ہیں

کہ کہتے تھے یوں دین و دنیا کے سرور
کہ اس دن پڑھو مجھ پہ صلوات اکثر

کہ اس کو بَہ تخصیص لاتے ہیں مجھ تک
مِرے سامنے عرض کرتے ہیں بے شک

تو میں خیر کی تم کو دیتا دعا ہوں
گناہوں کی بھی مغفرت چاہتا ہوں

روایت میں ہے اور اس طرح آیا
کہ ارشاد ہے خاتمِ انبیا کا

کہ تم روزِ آدینہ، اے مومنو، جو
درود اور صلوات کو بھیجتے ہو

گزر اُس کو ہوتا ہے عرشِ بریں پر
نہیں عرش سے اُس کا مسکن فرو تر

فرشتے یہ آپس میں کہتے ہیں یارو
تم اس پڑھنے والے پہ صلوات بھیجو

ہوا یہ بھی اہلِ فضائل سے مروی
فضیلت شبِ جمعہ کی یہ بیاں کی

کہ کیا ہی خصوصیت اس رات کی ہے
کہ اس رات تسلیم میں جو کوئی ہے

جواب اُس کو دیتے ہے سردارِ عالَم
بَہ نفسِ نفیس و بَہ ذاتِ مکرّم

کیا یہ بھی مرقوم علمائے دیں نے
کتابِ حدیثِ شریفِ نبی سے

کہ حضرت نے ارشاد ایسا کیا ہے
کہ یہ وصف یعنی شبِ جمعہ کا ہے

کہ اس شب میں جو کوئی بندہ خدا کا
درود ایک سو بار مجھ پر پڑھے گا

تو سو حاجتیں اُس کی ہوئیں گی آساں
مگر اُس کی تفصیل کا ہے یہ عنواں

کہ پائے گا ستّر وہ حاجاتِ دنیا
رہیں تیس باقی وہ ہیں بہرِ عقبیٰ

یہاں اور بھی ہے ورودِ روایت
کہ ہے روزِ آدینہ کی یہ فضیلت

کہ وردِ درود اس میں جو یوں کرے گا
ہزار ایک اس روز یعنی پڑھے گا

نہ باندھے گا دنیا سے وہ رختِ رحلت
نہ دیکھے گا جب تک مکان اپنا جنّت

شب و روزِ آدینہ میں جو فضائل
کہ صلوات خوانی سے ہوتے ہیں حاصل

اِسی طرح فاضل دو شنبہ کی شب ہے
حصولِ مَراتب کا عالی سبب ہے

ہوئی اور یوں ایک وارد روایت
کہ ہے پنج شنبہ کو بھی یہ فضیلت

کہ جو کوئی سو بار صلوات گن کر
پڑھے گا جنابِ رسولِ خدا پر

کبھی وہ نہ محتاج و مفلوک ہوگا
نہ ہوگا وہ مفلوک و محتاج ہوگا

کدھر ہیں وہ دیدارِ حضرت کے طالب
کہاں ہیں وہ مشتاقِ حُسنِ مَطالب

کہ سن لیں مِرے اِس کلام و بیاں کو
کریں اِس بیاں پر فدا اپنی جاں کو

کہ بہرِ حصول و وصولِ زیارت
لکھی ہے درودِ مبارک کی کثرت

نہیں کوئی مومن زمانے میں ایسا
کہ مشتاقِ دیدارِ حضرت نہ ہوگا

بس اب لازمِ وقت ہے مومنوں پر
درود اور صلوات کا ورد اکثر

ذرا اور بھی خاتمے پر، عزیزو!
خداوندِ اکبر کا ارشاد سن لو


صَلُّوْا عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ