جمعہ , 14 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Friday, 05 December,2025


شجر کا نہ حجر کا نہ مہ و خورشید و اختر کا





شجر کا نہ حجر کا نہ مہ و خورشید و اختر کا

میں بندہ ہوں پجاری ہوں بس اک اللہ اکبر کا


نبیِّ پاک کے ہاتھوں سے پی کر جام کوثر کا

 ہمیں بھی دیکھنا ہے حوصلہ خورشیدِ محشر کا

 

ہمیں بھی کاش مل جاتا مقدّر ایسے پتھر کا

وہ پتھر جس میں اُترا نقش تیرے پائے اطہر کا

 

غلامِ مصطفیٰ ہو کر سکندر ہوں مقدّر کا

سکندر کب ہوا محتاج دنیا میں کسی در کا

 

دوعالم پر حکومت ہے مگر جو پر قناعت ہے

ہے اندازِ جہاں بانی انوکھا میرے سَروَر کا

 

حسینوں میں بہت دیکھا مگر تم سا نہیں دیکھا

 نمونہ بھی نہیں ملتا تمھارے رُوئے اَنور کا

 

نکمّا بد عمل ہوں اس لیے کچھ کہہ نہیں سکتا

 سمجھ لیں آپ ہی مفہوم میرے دیدۂ تر کا

 

تِرے در سے تِرے دشمن بھی خالی ہاتھ نہ لوٹے

 مِری بھی لاج رکھ لینا کہ منگتا ہوں تِرے در کا

 

سلامِ عاجزی جب میں کروں گا اُن کو تربت میں

 فرشتے بوسہ لیں گے میرے لب کا اور مِرے سر کا

 

حیاتِ ظاہری میں ساتھ حیاتِ باطنی میں ساتھ

مقدّر تو کوئی دیکھے عمر، صدّیقِ اکبر کا

 

نہ اُلجھو، اے جہاں والو! ہمارے سر پہ سایہ ہے

رضا کا، غوث کا، حسنین کا، عثمان و حیدر کا

 

غلامِ مصطفیٰ ہوں میں، مُریدِ مصطفیٰ ہوں میں

 کرم بے پایاں ہے مجھ پر حبیبِ رَبِّ اکبر کا

 

یہ جرأت اور بے باکی رضا کے فیض سے پائی

 ٹھکانا ہی نہیں دل میں ہمارے خوف اور ڈر کا

 

حسینانِ جہاں کا کیا بھروسہ کب نظر پھیریں

 کسی کو کوئی اندازہ ہوا کب ان کے تیور کا

 

یہ ریحؔاں دین و سنت کے مہکتے ہیں جدھر دیکھو

 نوازش ہے رضا کی اور احساں اُن کے منظر کا