شیشے گردش میں ہیں نہ پیمانے
رقص کرتے ہیں آج میخانے
کس کی یاد آگئی خدا جانے
آنکھ آنسو لگی جو برسانے
شمع رخ کے سبھی ہیں پروانے
ساقیا رند ہوں کے فرزانے
جذبۂ شوق کا خدا حافظ
صبر کے بھر گئے ہیں پیمانے
پی کے مے آج دے رہے ہیں دعا
ساقیا تجھکو تیرے مستانے
گریوں ہی برق بار بار آئی
ہر شجر پر بنیں گے کاشانے
گرد ساقی ہجوم تشنہ لباں
شمع کے گرد جیسے پروانے
آب دے کر نہ دے فریب شراب
پینے والے نہیں ہیں دیوانے
قطرۂ اشک بن گیا موتی
آہ دل سے بنے ہیں افسانے
رخ کبھی دیکھتے ہیں زلف کبھی
ہم بھی کیا ہوگئے ہیں دیوانے
پہلے بے ساختہ وہ ملتے تھے
رفتہ رفتہ لگے ہیں شرمانے
شکل جو چاہے دیکھ لے اخؔتر
آدمی دل کا حال کیا جانے