/ Friday, 14 March,2025


شیشے گردش میں ہیں نہ پیمانے





شیشے گردش میں ہیں نہ پیمانے
رقص کرتے ہیں آج میخانے
کس کی یاد آگئی خدا جانے
آنکھ آنسو لگی جو برسانے
شمع رخ کے سبھی ہیں پروانے
ساقیا رند ہوں کے فرزانے
جذبۂ شوق کا خدا حافظ
صبر کے بھر گئے ہیں پیمانے
پی کے مے آج دے رہے ہیں دعا
ساقیا تجھکو تیرے مستانے
گریوں ہی برق بار بار آئی
ہر شجر پر بنیں گے کاشانے
گرد ساقی ہجوم تشنہ لباں
شمع کے گرد جیسے پروانے
آب دے کر نہ دے فریب شراب
پینے والے نہیں ہیں دیوانے
قطرۂ اشک بن گیا موتی
آہ دل سے بنے ہیں افسانے
رخ کبھی دیکھتے ہیں زلف کبھی
ہم بھی کیا ہوگئے ہیں دیوانے
پہلے بے ساختہ وہ ملتے تھے
رفتہ رفتہ لگے ہیں شرمانے
شکل جو چاہے دیکھ لے اخؔتر
آدمی دل کا حال کیا جانے