/ Friday, 14 March,2025


سورہی ہے مری حسرت مجھے آواز نہ ہو





سورہی ہے مری حسرت مجھے آواز نہ ہو
جاگ جائے نہ قیامت مجھے آواز نہ دو
میں چمن زاد سہی پھر بھی چمن بخت نہیں
کہکے رخصت ہوئی نکہت مجھے آواز نہ دو
دیکھ کر قامت زیبا کو قیامت بولی
اب نہیں میری ضرورت مجھے آواز نہ دو
اللہ اللہ رے تیری تلخ کلامی کی مٹھاس
بول اٹھا قند حلاوت مجھے آواز نہ دو
گم ہوں میں انکے تصور میں نہ چھیڑو مجھکو
میں ہوں مصروفِ عبادت مجھے آواز نہ دو
آہِ مظلوم دعا بن کے ندا کرتی ہے
ہے کھلا بابِ اجابت مجھے آواز نہ دو
کچھ نہیں یاد بجز کوچۂ جاناں مجھ کو
کتنی اچھی ہے یہ غفلت مجھے آواز نہ دو
آسمانوں کے پرے ہے مری وحشت کا مقام
سن لو اے اہل فراست مجھے آواز نہ دو
رب کی قھاری بھی اخؔتر یہ صدا دیتی ہے
دیکھ کر اشک ندامت مجھے آواز نہ دو