سورہی ہے مری حسرت مجھے آواز نہ ہو
جاگ جائے نہ قیامت مجھے آواز نہ دو
میں چمن زاد سہی پھر بھی چمن بخت نہیں
کہکے رخصت ہوئی نکہت مجھے آواز نہ دو
دیکھ کر قامت زیبا کو قیامت بولی
اب نہیں میری ضرورت مجھے آواز نہ دو
اللہ اللہ رے تیری تلخ کلامی کی مٹھاس
بول اٹھا قند حلاوت مجھے آواز نہ دو
گم ہوں میں انکے تصور میں نہ چھیڑو مجھکو
میں ہوں مصروفِ عبادت مجھے آواز نہ دو
آہِ مظلوم دعا بن کے ندا کرتی ہے
ہے کھلا بابِ اجابت مجھے آواز نہ دو
کچھ نہیں یاد بجز کوچۂ جاناں مجھ کو
کتنی اچھی ہے یہ غفلت مجھے آواز نہ دو
آسمانوں کے پرے ہے مری وحشت کا مقام
سن لو اے اہل فراست مجھے آواز نہ دو
رب کی قھاری بھی اخؔتر یہ صدا دیتی ہے
دیکھ کر اشک ندامت مجھے آواز نہ دو