/ Friday, 14 March,2025


سوئے گلشن ابر اٹھتا ہے کہ اٹھتا ہے دھواں





سوئے گلشن ابر اٹھتا ہے کہ اٹھتا ہے دھواں
دیکھئے جلتا نہ ہو شاید ہمارا آشیاں
کس طرح ہو پھر تمیز مہرباں، نامہرباں
پھر رہے ہیں سوبسو گلچیں بشکل باغباں
پھر ہمیں پہ ہے یہ کیوں الزام فریاد و فغاں
کس کو حاصل ہے جہاں میں ساعتِ امن و اماں
کاروانِ کفر و ایماں راہ میں بھٹکا کئے
اور مجھ کو مل گیا ہے اپنی منزل کا نشاں
چشم حیراں نے جو دیکھا دفعتہً چہرہ ترا
سمجھا، گیتی پر اُتر آیا ہے خورشید جہاں
کا کل پر پیچ میں ان کے تلاشی لیجئے
میرے پہلو میں کہاں ہے میرا دل اے ہم زباں
تھا کبھی شیریں زبانی کا ترے چرچا مگر
تو نے خود بدلا ہے اخؔتر اپنا اندازِ بیاں