سوئے گلشن ابر اٹھتا ہے کہ اٹھتا ہے دھواں
دیکھئے جلتا نہ ہو شاید ہمارا آشیاں
کس طرح ہو پھر تمیز مہرباں، نامہرباں
پھر رہے ہیں سوبسو گلچیں بشکل باغباں
پھر ہمیں پہ ہے یہ کیوں الزام فریاد و فغاں
کس کو حاصل ہے جہاں میں ساعتِ امن و اماں
کاروانِ کفر و ایماں راہ میں بھٹکا کئے
اور مجھ کو مل گیا ہے اپنی منزل کا نشاں
چشم حیراں نے جو دیکھا دفعتہً چہرہ ترا
سمجھا، گیتی پر اُتر آیا ہے خورشید جہاں
کا کل پر پیچ میں ان کے تلاشی لیجئے
میرے پہلو میں کہاں ہے میرا دل اے ہم زباں
تھا کبھی شیریں زبانی کا ترے چرچا مگر
تو نے خود بدلا ہے اخؔتر اپنا اندازِ بیاں