/ Thursday, 13 March,2025


طبعِ پُر جوش نے توڑا جو جہانِ وحدت





قصیدہ

درمدحِ شیخ الاسلام و المسلمین

سیدی  و مولائی الشاہ امام احمد رضاخاں فاضل بریلی قدس سرہ العزیز

طبعِ پُر جوش نے توڑا جو جہانِ وحدت
چشمِ تحقیق پھر اپنی ہوئی محو کثرت
کتبِ علمیہ سب حیطۂ ادراک میں تھیں
مکتبِ دہر میں ثابت تھی مری علمیت
مبتدی، منتہی بننے کو چلے آتے تھے
خطباء بنتے تھے آکر سبھی اہلِ لکنت
شملۂ تاجِ تکلّم سے تھی تطویلِ علوم
تختِ تدریس کے پائے تھے رفیع الشوکت
تھی شب و روز کچھ اِس طرح سے تعلیمِ علوم
ابتداء کرتا ہوں تخلیص سے لے کر اُجرت
نحو و تصریف میں ہوتا جو میں محو و مصروف
وزن و اعراب کی مِٹ جاتی تھی پھر نزعیت
ایک ہی لفظ میں لاتا تھا جہاتِ اربع
کرتا توسیعِ معانی سے میں عدمِ عُسرت
سبعِ احرف میں کبھی لہجۂ شیریں مشہور
لقبِ شیخ سے مشہور بعلم قِرأت
عروۃ الوثقی کبھی مجھ کو تھی در علم و عروض
خوب تھی بزمِ قوافی میں بھی میری شہرت
کبھی کرتا میں دوائر پہ زحافات کی مار
ہوتے اِک بحر سے آہنگ ہزاراں مُثبت
ڈوبتا بحرِ تحیّر میں جہانِ شعراء
کرتا میں شعر میں پیدا وہ کمالِ صنعت
شعراء کہتے تھے سب طورِ تخیل کا کلیم
حیرت افزا تھی میرے مضموں کی رفعت
کبھی ابحاث میں تھے علم معانی و بدیع
کبھی شعراء عرب کی میں بناتا درگت
کبھی میں لفظ و معانی میں شراکت کرتا
وجہِ اعجاز کی کرتا میں بیاں سببیت
کبھی تفسیر میں ہوتا مجھے دخلِ کامل
کرتا میں نظم مآخذ پہ کلامِ غایت
آیت آدم الاسماء تھی کبھی شاملِ درس
نطق تھا گویا مرا بحرِ رموزِ آیت
کبھی کرتا میں اصول اور احادیث پہ بحث
کبھی اسنادِ احادیث میں صاحب خبرت
تکتا تاریخ کے ادوار میں اقوامِ کہن
دیتا اقوام اواخر کو میں پھر سو عبرت
ارثمأ طیقی و الجبرأ و اسرارِ حروف
آکے آغوشِ تکلم میں یہ پاتے راحت
کبھی میں علمِ مغازی کو بناتا موضوع
جانِ رحمت کا دِکھاتا میں جمالِ سیرت
کبھی تحقیقِ مسائل رہی در علمِ خلاف
ساغرِ سرِّ شریعت سے میں پیتا شربت
معترض ہوتا کبھی علتِ اربع پر میں
شرعی اوصاف کی کرتا کبھی ثابت علّت
کبھی میں فقہہ کے کرتا تھا مآخذ پہ کلام
مجتہد ایسا کہ تقلید میں آتی اُمت
حنبلی، مالکی اور شافعی حنفی تھا کبھی
کبھی تطبیق مذاہب میں مجھے خاصیّت
کبھی تصحیح مسائل تھی مرے پیشِ نظر
تھی روایت میں سُنن اور فرائض کی صحت
ہفت افلاک کبھی رہتے تھے زیرِ ابحاث
سبعِ ارضین پہ بھی رہتی تھی تحقیق بہت
کبھی اجسام کے کرتا میں حجم کی باتیں
کبھی تدویرِ فلک پر تھا بیانِ ہیت
مشتری، زہرہ میں کرتا مَیں قران السعدین
کبھی اجرامِ فلک پر تھا بیانِ رجعت
کبھی اقوامِ کہن کا تھا مجھے پاسِ ادب
کرتا تھا حُسنِ زباں دانی سے تزئین لغت
کبھی اعدادکے خوّاص پہ تھی گہری نظر
کبھی اسماء کی بیاں کرتا تھا میں وصفّیت
بربطِ ریشم و ارگن سے بجاتا نغمے
کبھی اصوات کی کرتا تھا بیاں کیفیت
عقل کو طبع و تکلّف کا بناتا میں امیر
کرتا حیوان سے ممتاز میں حیوانیت
قوتِ فکر کبھی شہوت و افعالِ دگر
ملکۂ خُلق کے ماتحت تھی میری فطرت
کبھی تھا طبّ میں مشہور طبیب حاذق
طبّ کے کرتا تتّبع میں کبھی طبعیت
کبھی تصدیق و نفی سے تھی تصوّر پہ گرفت
پاتا معروف سے مجہول کی میں عرفیت
کبھی میں قضیہ وجودی کی گرہ سُلجھاتا
کبھی اشکال کے انتاج میں تکتا صورت
کبھی اجسام میں کرتا میں تغّیر کا ثبوت
کرتا عالم کو میں حادث بسکون و حرکت
کبھی کرتا جو بیاں فلسفہ مقدار و مکاں
ہوتی پامال دلائل سے مرے جسمیت
کبھی کرتا جو بیاں ہستئ ذاتِ باری
صد دلائل سے بیاں کرتا تھا میں نفیِ جہت
کبھی کرتا جو میں تشبیہہ میں تمحیص عنیق
چھوڑتا کر کے بیاں ذات کی میں غیریت
کبھی تر دید میں تھی نسبتِ افعال قبیح
کرتا ثابت جو انہیں کوئی بھی تحتِ قدرت
کبھی کفّارِ عرب سے تھا تکلّم میں جدال
وجہِ عالم کی نبوت پہ میں لاتا حجت
لفظ امکاں کو مساوی میں عدم سے کرتا
کرتا راجح میں اسی ذات کو مع فوقیت
بسط و ترکیب کے سلجھاتا میں عقدے ایسے
نطق سے میرے بیاں ہوتی خُدا کی وحدت
 کرتا اشیاء کے میں اجزاء کی وہ تفریق لطیف
وحدتِ حق میں بیاں کرتا میں عدم کثرت
ہمہ از اوست و ہمہ اوست میں اُلجھا رہتا
کبھی میں شیخ و مجدد کی پہنتا خلعت
کرتا جو علّت و معلول پہ تقریر بلیغ
ہوتے انگشت بدنداں سبھی اہلِ حکمت
پوچھتی حرکتِ اجسام محرّک کا پتہ
میں اِسی لا متحرک کی بیان کرتا صفت
کبھی کرتا میں خطِ غیر تناہی کو محال
قوت چشم میں کرتا کبھی عدم وسعت
کبھی میں عدم تناسخ پہ دلیلیں دیتا
روح کو کرتا میں پابند اصول قدرت
غرض، معقول و منقول کی رہتی بحشیں
صاف گردن سے عیاں رہتا غرور و نخوت
آخرش دیکھا تو یہ علم تھا اِک دردِ دماغ
ایک لمحے کے لئے آئی نہ مجھ کو راحت
کتب علم سمندر میں بہائیں میں نے
علم کے لوگوں سے اپنائی جو میں نے عزلت
سوئے میخانہ چل مدرسہء دہر سے مَیں
ملے مجھ کو بھی کِسی ہاتھ سے جامِ عشرت
وجد میں آکے پڑھوں مطلع برجستہ میں وہ
اہلِ حق سُن کے جِسے دیں مجھے داد الفت

 

مطلع ثانی

گر نہ آغاز جنوں میں ہو ہویدا فترت
سوزش عشق جلائے نہ حجاب غیبت
کیا ہُوا عقل نے چھانا تھا جو صحرائے علوم
دیدۂ ذوق نے دیکھا نہ کنارِ وحشت
کیا ہوا علم جواہر سے کیا ذرّے کو یاقوت
کیا ہُوا عِلم فراست میں جو پائی شہرت
پست افراد رمل پستئ تقدیر سے ہیں
عقلہ و قبض و نفی، عتبہ طریق و نصرت
گرچہِ اکسیر کی انواع رہیں تحت ادراک
کھلے ہر نوع کی بےفیض نہ کچھ نوعیت
علم طلسم سے اگر مہر پہ ہو قید بروج
بے مقدر نہ نتیجے پہ یہ پہنچے جودت
گو تصوف میں مِلے وحدت و کثرت کے مزے
فائدہ کیا نہ ہو خلوت میں ورود جلوت
آتش علم سے گر خُشک ہو سب آبِ ارض
ولے یہ ذوق تو ہے قیدئ دشت غربت
وائے ابلیس کو اس علم نے مردود کیا
حشر تک اِس کے گلے میں پڑا طوقِ لعنت
آفت علم کے ڈر سے ہوئی شوریدہ سری
دشت و صحرا سبھی چھانے نہ مٹی کچھ وحشت
شکر اَلْحمد کہ پہنچا میں دیارِ اقطاب
مہرباں مجھ پہ ہُوا کیسے ولئ نعمت
کیا کہوں کیسی تھی وہ وادئ حیرت افزا
جسکے افراد تھے سب صاحب خرق عادت
کہیں تھا حسن تشہد تو کہیں حسن قیام
کہیں تسبیح و تلاوت، کہیں جامِ وحدت
گوشۂ رنداں میں، میں افتاں و خیزاں پہنچا
شدّتِ غم سے گِرا کہہ کے میں آب فرحت
پھر چھلکتا ہُوا اِک جام لگا ہونٹوں سے
تلخئ عِلم کی پھر ختم ہوئی کیفیت
مہر انوار ہوا ظلمت باطن میں طلوع
دیکھ کر جس کو ہُوا خندۂ صبح عشرت
بیخودی میں اُٹھا پھر ہاتھ کہ اِک جام ہو اور
لذّت شرب سے بڑھتی گئی میری شدّت
چشم رنداں کے لئے تھا میں تماشا گویا
پہنچی ساقی کو خبر کون ہے یہ کم ہمت
قدم ناز اُٹھاتا ہُوا نِکلا کوئی
دست بستہ تھے کھڑے سامنے اہلِ فطنت
آئی آواز کہ تھا رقصِ حلاوت جس میں
غازۂ خلق تھی کیا نرمئ خوئے لینت
بزم رنداں میں ہے یہ کون مثال شمعی
کون آیا ہے یہ متلاشئ سرّ وحدت
سر اُٹھایا تو عیاں منظر انوار ہُوا
تھا کھڑا سامنے وہ ساقی شیر و شربت
ہر طرف اس کے تھا اِک ہالۂ انوار ازل
تھا وہ سر تا بقدم جلوۂ شان قدرت
ڈال دے مخزن انوار سے اِک راز اگر
خس و خاشاک ہوں پل بھر میں یہ بحر و پربت
مدح خواں اُس کے تھے اہل ارشاد و تکوین
کہتے تھے اُس کو سبھی قاسم کنز نعمت
خادم اس کے تھے جہات اربع پر معمور
ہفت ابرار کے سر پر تھا وہ ابر رأفت
خوشہ چیں اس کے دبستاں کے تھے اہلِ تمکیں
اہلِ تلویں کو عطا کرتا بساط قربت
تھا قدم اُس کا سر عرش ولایت سے بُلند
مَلتے تھے اولیا بھی چہروں پہ گردِ رفعت
فقر تھا حسن تلذذ کے لئے ملح طعام
فقراء سب تھے بڑھائے کف بحر حاجت
جذبہ و ذوق و رضا، حسن تمارین خیال
مشعل خلوت در بزم تھی اس کی صحبت
بارش فتح سے زرخیز تھی کیا ارض فتوح
اوج ہاہوت تلک تھے شجر بشریت
بزم رنداں میں لکھوں وجد میں آکر مطلع
اہلِ عرفان کو دوں مژدۂ حسن صورت

مطلع ثالث

واہ اس گل میں تھی کیا بوئے کمالِ حیرت
جس سے مہکا ہُوا تھا گلشن انسانیت
نور عارض سے عیاں ہوتا تھا حسن عارض
حسن انوار میں گم تھے اہلِ جمعیت
متحد غلبۂ انوار سے ہوں جیسا کہ قوسین
شکل ابروئے خمیدہ کی تھی ایسی حالت
فتق گلہائے طریقت کا تھا اس سے اثبات
نرگس باغ حقیقت تھا وہ طوبیٰ قامت
شانۂ زلف کی عاشق تھی نسیم تفرید
گلشن معنی میں تھا وہ سہی سر و قامت
بحر آگاہی میں گُم ہوں ارواح و اشباح
ٹپکے جو زلف سے اِک قطرۂ جذب و الفت
سفر در وطن سر گیسوئے خمدار پہ تھا ختم
کاشف پردۂ لاہوت تھی جس کی نکہت
سبزۂ نورِ الست اُس کی تھی مژگان دراز
غازۂ حسن بلیٰ شبنم ابر طلعت
عقدۂ معنئ موہوم کی کھُل جائے گرہ
جنبش حسن کمر پائے جو پل کی مہلت
قلب جو سر خداوندی کا تھا مرکز فیض
تو اَلَمْ نَشْرَح تھی اس پہ دلیل وسعت
جنبش لب کے اثر سے ہلے زنجیر قدر
نور اسنان سے چمکائے وہ نجم قسمت
وادئ حسن تکلم میں تھا کیا سبزۂ نور
حسن افروز تھا کیا چشمۂ علم و حکمت
پہلوئے ناز میں پھر دے کے مجھے جائے شرف
میرے میزان تخیل پہ رکھا دست شفقت
پھر یہ فرمایا کہ اے طالب راز مستی
سوزش غم سے بجا اب نہ یہ ساز نکبت
تیری بے چینی سے بے چین ہیں ارباب شہود
اہلِ احوال کے چہروں کی ہے بدلی رنگت
تنگ اتنا بھی نہیں دائرہ اہلِ وقوف
مرد و نامرد کی سب جانتے ہیں اصلیت
مسکرا کر کہا اب غور سے سُن مژدۂ عیش
چشم وجدان سے اُٹھ جائے حجاب رؤیت

 

 

مطلع رابع

یوم مولود ہے اس کا جو ہے ظلِ رحمت
کھُل گیا معنئ اتمت علیکم نعمت
ظلِ رحمت وہ جسے کہتے ہیں احمد ہندی
گرچہ بیعت ہے ہماری پہ ہے رشک بیعت
فیض مولائے علی﷜ اس کی طبع میں جاری
کم سنی میں تھی عطا اس کو حیائے حشمت
چشم سے اس کی ٹپکتی تھی حیائے تقصیر
طبع کو صورتِ سجدہ میں تھی شب بھر رغبت
تربیت عالم عالی سے ہوئی تھی اُس کی
اہلِ لاہوت صدا اس کے رہے ہم صحبت
بحر مسجور کی اسماک میں اُس کے چرچے
ایسا ترسا کہ ہُوا رشک عباد و خلقت
 کیا بوادِ رہِ معمور تھی اس پر شیدا
موسم علم میں بلبل کو نوید بہجت
اہلِ علم آتے تھے خیراتِ سکوں لینے کو
اہلِ تقوی کو بھی یاں رہتی تھی طلب دعوت
بزم میں اس کی وہ جلتے تھے چراغانِ سلوک
نور سے جن کے چھٹے قلب سے ابر غفلت
اختصاص ایسا کہ قلب اس کا تھا بیت معمور
جسم سے اُس کے ہویدا ہوئی روحانیت
خانۂ نطق جو اُس کا کھُلا، کھُلا چاہِ زنخ
خامہ اس کا جو چلا، فکر میں آئی سرعت
حلقۂ خلع بدن کی صف اوّل کا امام
جس کو حق سے تھی ازل سے ہی عطائے خلت
شان تجدید نظر آئی تو اس کے دم سے
عالم شرع میں تھا مرجعٔ اہلِ سنت
جاؤ اس در پہ کہ حاصل ہو سکونِ قلبی
آتش علم تمہاری بھی ہو باغِ جنت
تیرے خمخانۂ باطن میں پڑے زور کا جوش
اہلِ وسواس کو پھر علم کرے دم میں غارت
روسیاہی وہ ملے جس سے ہوں روشن افکار
دوجہاں گرچہ رہیں تیرے اسیر ظلمت
جاؤ اس در پہ، مٹے نوحۂ توقان و اشجان
دیدۂ قلب سے اُٹھ جائے حجاب حسرت
مرکز ہند کا وہ والی و مختار و حکم ہے
سائلوں کے لئے بٹتی ہے وہاں فتح و نصرت
ایک عالم ہے کہ اس در کی طرف پھرتا ہے
حوض فیضان محمد بنی اس کی تربت
گویا اس شیخ نے بھیجا مجھے پھر جانب ہند
آگیا پھر سے مرے نطق میں شکر نعمت
پہنچا جو تربت اقدس پہ تو احساس ہُوا
جسد و روح سے پل بھر مِٹی سب وحشت
دیکھتا ہوں کہ ہجومِ اہلِ عمل کا آیا
حلقۂ عِلم نے بھی آکے دکھائی جلوت
پھر ہُوا رقص، اُٹھا شور، پڑی ایسی دھوم
کُھل گئی آنکھ مری اور میں محوِ حیرت
پہروں لے لے کے مزے سوچ میں مَیں غرق رہا
کاش یہ خواب حقیقت کی بدلتا صورت
کرتا ہوں ختم سُخن اپنی دُعا پر رازؔی
چھوٹے مجھ سے نہ کبھی دامن اعلیٰ حضرت﷫