تصوّر میں یہ کیسا منظرِ طیبہ ہے لہرایا
زباں پر نام جب آیا ضیاءُ الدین احمد کا
مقدّر کیوں نہ ہو نازاں کہ اُن کو تا دمِ آخر
مکینِ گنبدِ خضرا کا قربِ خاص حاصل تھا
چراغِ عشقِ مصطفوی جلائے عمر بھر جس نے
کہ روز و شب رہا معمول ذکرِ مصطفیٰ جن کا
وہ جس کی ذات اِک سر چشمۂ رشد و ہدایت تھی
عرب میں اور عجم میں بھی ہے اُس فیّاض کا چرچا
مہکتا تھا جو حُبِّ احمدِ مُرسَل کی خوشبو سے
وہ پیکر نسبتِ احمد رضا خاں سے منوّر تھا
رہا کردار اُس کا شیوۂ اَسلاف کا مظہر
نہیں ملتا کہیں دنیا میں گوہر بے بہا ایسا
سبق دیتی ہے اُن کی زندگی ہر سانس ہو جائے
رسولِ ہاشمی کی ہر ادا پہ والہ و شیدا
ظہوؔری نے بھی اُن کے ہاں حضوری کےمزے لوٹے
’’خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را‘‘