عبد الکریم صاحب برائے حاجی سلیمان ابراہیم
ٓٓ-------------------------
مژدہ دیتی دلِ مضطر کو صبا آئی ہے
چل سلیماں کے یہاں انجمن آرائی ہے
چل دکھائیں وہ کسی کا تجھے دولھا بننا
اٹھ کے کیا خوب یہ سامانِ شکیبائی ہے
غمِ ہستی کو بھلادے یہ ہے بزمِ مستی
جھوم کر تو بھی کہہ فضا ساری ہی صہبائی ہے
دل بھی آخریہ پکار اٹھاکہ اے بادِ صبا
آفریں کیا تری باتو ں کی پذیرائی ہے
ہم بھی اس ماہ جبیں کو دیکھیں تو سہی
مہ جبینوں کی نظر جس کی تماشائی ہے
یا خدا تازہ رہیں یہ پھول سہرے کے سدا
نہ کبھی جائے جو یہ فصل بہار آئی ہے
ان دو پھولوں سے کھلیں پھول کچھ ایسے یارب
بلبلِ دینِ نبی جن کا تمنائی ہے
جن کی خوشبو سے معطر ہو دماغِ عالم
کہ مجھے قوم سے الحاد کی بو آئی ہے
ہمصفیروں میں یہ چرچے ہیں ترے اخترؔ
بلبل باغِ رضا خوب نوا پائی ہے
٭…٭…٭