/ Friday, 14 March,2025


تیری آمد ہے موت آئی ہے





میں نے مر کے حیات پائی ہے

تیری آمد ہے موت آئی ہے
جان عیسیٰ تری دہائی ہے

کیوں وطن اپنا چھوڑ آئی ہے
کیوں سفر کی مصیبت اٹھائی ہے

سیکڑوں آفتوں میں پھنسنے کو
کیوں بدن میں یہ جان آئ ہے

ان کے جلوے ہیں میری آنکھوں میں
اچھی ساعت سے موت آئی ہیں

تم کو دیکھا تو دم میں دم آیا
آپ آئے کہ جان آئی ہے

مر رہا تھا تم آئے جی اٹھا
موت کیا آئی جان آئی ہے

اب تو آؤ کہ دم لبوں پر ہے
چہرے پر مردنی بھی چھائی ہے

آیئے وقت ہے یہ آنے کا
دیکھ لیں سب کی جاں پھر آئی ہے

زندگی میں نے پائی مر مر کے
میں نے جی جی کے موت پائی ہے

زندگی کیا تھی جس میں موت آئی
زندگی بعد مرگ پائی ہے

موت کا اب نہیں ذرا کھٹکا
زندگی شبھ گھڑی سے پائی ہے

مرتے ہی زندگی ملی مجھ کو
موت کے ساتھ جان آئی ہے

حسرت دید یار میں ہم نے
آج مرمر کے موت پائی ہے

جو حسیں دیکھا مر مٹا اس پر
میں نے مر کے حیات پائی ہے

چین کی نیند آج سویا ہوں
موت آرام کی سلائی ہے

شامتوں نے تمہاری گھیرا ہے
موت تم کو یہاں پہ لائی ہے

ذبح کر ڈالا تو نے او ظالم
نفس تو تو نرا قصائی ہے

طاعت حق کا نام سنتے ہی
تجھ کو کم بخت موت آئی ہے

معصیت زہر ہے مگر اوندھے
تو نے سمجھا اسے مٹھائی ہے

کیا بگاڑا تھا تیرا کیوں بگڑا
زہر کی پیالی کیوں پلائی ہے

اچھے جو کام کرنے ہیں کرلو
جان اپنی نہیں پرائی ہے تو ناری

نوریؔ ہر گز نہیں ہے
موت اسلام تو نے پائی ہے

واہ کیا بات آپ کی نوریؔ
کیا ہی اچھی غزل سنائی ہے

سامانِ بخشش