تیری اوقات ہی کیا ہے کرے جو بات رفعت کی
سنی ہے میں نے قرآں سے حکایت ان کی مدحت کی
ابھی جی بھر کے دیکھا ہی کہاں دیوارِ روضہ کو
صدائے جاں بلب کس نے سنائی پھر سے رحلت کی
امن کی جستجو تھی تو حرم کو چھوڑ کیوں آئے
شکایت کیا کریں خود سے خریدارِ ہلاکت کی
بگڑتے گرتے پڑتے دل میں وہ جوشِ بلا دیکھا
ذرا سی چار باتیں کیا سنائیں ہم نے الفت کی
میرے ذوقِ جنوں پر ہنسنے والو کیا خبر تم کو
کہ مٹنے سے سیکھائی ہے رضانے بات شہرت کی
چلے تحت الثریٰ آؤ ترفُّع کے طلبگارو !
یہ سعدی نے گلستاں میں نکالی راہ رفعت کی
الٰہی صدقۂ موسیٰ وہ سامانِ نظر دینا
ملائک بات چھیڑیں جب عدالت میں زیارت کی
نہیں کچھ شور و غوغہ اور لٹانا جاں صحابہ کا
کہ پروانوں نے سیکھی ہے یہاں سے شان حکمت کی
مدد کی بھیک مانگے پھر رہے ہیں وہ بھی محشر میں
کہ جن کو استعانت پر عداوت تھی قیامت کی
یہ بھولا صبح کا بھٹکا مگر نہ شام کو لوٹا
وگرنہ دیکھتا یہ بھی کہیں تاویل رحمت کی
ذرا ایمان تو پرکھو ، ذرا اعمال تو دیکھو
بڑے آئے شکایت کرنے والے اپنی قسمت کی
یہ چاہت ہے تری فاراں سبھوں میں انقلاب آئے
چراغوں سے سحر ہوتی نہیں ہے ایسی ظلمت کی