/ Friday, 14 March,2025


تیری اوقات ہی کیا ہے کرے جو بات رفعت کی





تیری اوقات ہی کیا ہے کرے جو بات رفعت کی
سنی ہے میں نے قرآں سے حکایت ان کی مدحت کی

ابھی جی بھر کے دیکھا ہی کہاں  دیوارِ روضہ کو
صدائے جاں بلب کس نے سنائی پھر سے رحلت کی

امن کی جستجو تھی تو حرم کو چھوڑ کیوں آئے
شکایت کیا کریں خود سے خریدارِ  ہلاکت کی

بگڑتے گرتے پڑتے دل میں وہ جوشِ بلا دیکھا
ذرا سی چار باتیں کیا سنائیں ہم نے الفت کی

میرے ذوقِ جنوں پر ہنسنے والو کیا خبر تم کو
کہ مٹنے سے سیکھائی ہے رضانے بات شہرت کی

چلے تحت الثریٰ آؤ ترفُّع کے طلبگارو !
یہ سعدی نے گلستاں میں نکالی راہ رفعت کی

الٰہی صدقۂ موسیٰ وہ سامانِ نظر دینا
ملائک بات چھیڑیں جب عدالت میں زیارت کی

نہیں کچھ شور و غوغہ اور لٹانا جاں صحابہ کا
کہ پروانوں نے سیکھی ہے یہاں سے شان حکمت کی

مدد کی بھیک مانگے پھر رہے ہیں وہ بھی محشر میں
کہ جن کو استعانت پر عداوت تھی قیامت کی

یہ بھولا صبح کا بھٹکا مگر نہ شام کو لوٹا
وگرنہ دیکھتا یہ بھی کہیں تاویل رحمت کی

ذرا ایمان تو پرکھو ،  ذرا اعمال تو دیکھو
بڑے آئے شکایت کرنے والے اپنی قسمت کی

یہ چاہت ہے تری فاراں سبھوں میں انقلاب آئے
چراغوں سے سحر ہوتی نہیں ہے ایسی ظلمت کی