جمعرات , 27 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Thursday, 18 December,2025


تیری خوش ادائیوں سے ہے یہ جانفزا زمانہ





تیری خوش ادائیوں سے ہے یہ جانفزا زمانہ
ذرا مسکرا تو دیجئے با ادائے دل ربانہ
لگے حسن ماہ پر بھی ذرا ایک تازیانہ
ذرا گلعذار چہرے سے نقاب تو ہٹانا
مرے جذبۂ محبت سے ہے باخبر زمانہ
جہاں سر جھکا دیا ہے وہیں ان کا آستانہ
ارے اودل شکستہ یہ ہے کیسی آہ ریزی
مجھے ڈر ہے جل نہ جائے کہیں ان کا آستانہ
انھیں بجلیوں کی زدپر مری حسرتیں ہیں یارب
جنھیں  سونپ دے رہا ہوں میں اب اپنا آشیانہ
میں بشر ہوں میرے شہپر کی اڑان کچھ نہ پوچھو
ہے فضا میں طائرانہ تو فلک پہ صاعقانہ
مجھے ان کی برق نظری نے عطا کی زندگانی
یہ غلط ہے بجلیوں کی ہے سرشت قاتلانہ
کوئی میرے دل سے پوچھے کہ یہ حسن کیا بلا ہے
یہ خرامِ حشر ساماں یہ ادائے کافرانہ
یہ خدا کی شان دیکھو ہے ہمیں کو حکم سجدہ
کبھی سجدہ گاہ عالم تھا ہمارا آستانہ
کہیں بجلیوں کی دھمکی کہیں آندھیوں کا کھٹکا
ہے اسی میں خیر اخؔتر کہ رہوں میں بے ٹھکانہ