تری ذات مصدرِ ہر ضیا ترا نام مطلع ِ نور ہے
ترا درد حاصل ِ بندگی ترا غم متاعِ سرور ہے
یہ یقین فروز قیاس ہے تو ہر اک مقام سے پاس ہے
نظر آرہے ہیں جو فاصلے یہ مری نظر کا قصور ہے
جو جہاں نما جو خدا نما وہ جہاں ان کا جمال ہے
جو کٹے خیالِ حضور میں وہ حیات نور ہی نور ہے
مرا ذکر و فکر مرا سخن سوزوسازیہ میرا فن
تری نعت بن کے سنور گئے یہ ترے کرم کا ظہور ہے
ترے راستے میں جو آگیا وہ مراد زیست کو پا گیا
اسے زندگی کے علوم پر ترے فیض ہی سے عبور ہے
مرے پاس کچھ بھی نہیں تو کیا مرے لاج والے کی خیر ہو
مجھے ناز ان کے کرم پہ ہے مجھے مصطفیٰ پہ غرور ہے
جو تمہارے غم کا اسیر ہے وہ بڑا امیر وکبیر ہے
جو تمہارے در کا فقیر ہے غم ِ دو جہاں سے وہ دور ہے
جو طلب سے پہلے کرے عطا جو صدا سے پہلے سنے صدا
مری لاج والا وہی تو ہے جو حبیب ِ ربِّ غفور ہے
تری آرزو تری جستجو تری گفتگو مری آبرو
مری مستیوں کو بھرم ہے جو تری یاد ہی کا سرور ہے
تھے جہاں میں اور بھی مشغلے تھے جہاں میں اور بھی تذکرے
ترے ذکر ہی سے سکوں ملا کوئی بات اس میں ضرور ہے
ہے تمہارا خاؔلدِبینوا اسے بے سبب ہی نواز دو
نہ اسے قرینہ ءِ آرزو نہ اسے طلب کا شعور ہے