تھے تمہارے دوش بدوش ہم تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ رہِ حیات کا پیچ و خم تمہیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو
وہ دل مزار صد آرزو وہ وصال ساعتِ رنگ و بو
وہ خم صراحی و جام جم تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مرا نام دفتر عشق سے جو چلے تھے کاٹنے ایک دن
تو ٹھہر گیا تھا یدِقلم تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
رگِ زندگی رگِ سرخوشی رگِ بیخودی رگِ آگہی
وہ تمہاری زلفوں کا پیچ و خم تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو کہا کہ اور ذرا ستم تو کہا تھا تم نے بخندہ لب
ارے بے حیا ہے یہ کوئی کم تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
اے غرور حسن قمر فشاں! جو خوشی کو تج کے بھی شاد تھا
وہ تمہارا اخؔتر خستہ دم تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو