طور سینا ہے کہ ہے یہ خانقاہ اشرفی
کس قدر رونق فزا ہے جلوہ گاہ اشرفی
اے دل مضطر نہ گھبرا ہوش میں آ اس جگہ
دیکھ وہ پیش نظر ہے بارگاہِ اشرفی
درد دل میں لیکے بیٹھا ہوں انھیں کے آس میں
دیکھئے ہوتی ہے کب مجھ پر نگاہِ اشرفی
لوگ دامن کو کشادہ کر کے کیوں مسرور ہیں
ہاں کہیں اے دل نہ ہو یہ بارگاہِ اشرفی
لاڈلے شیرخدا کے غوث کے فرزند ہیں
شاہ سمنان کے ہیں پیارے میرے شاہ اشرفی
ساتھ عالم چھوڑدے اس کی مجھے پرواہ نہیں
میں سگ اشرف ہوں کافی ہے پناہ اشرفی
کاش اخؔتر مجھ کو طیبہ میں ملے تھوڑی سی جا
ورنہ میری قبر ہو اور بارگاہِ اشرفی