/ Friday, 14 March,2025


تجھ کو منظور رضائے نگہ جاں نہ سہی





اختر کیراپی کے نام!

تجھ کو منظور رضائے نگہ جاں نہ سہی
تیرے یہ اشک رہین غم جاناں نہ سہی
زخم احساس کے ناسور بھی عریاں نہ سہی
چاک اے دوست مگر اپنا گریباں بھی نہ کر
زیست کو اپنی شکایات کا عنواں بھی نہ کر
تجھ کو یہ فکر ہے منزل سے بہت دور ہیں ہم
ہمکو یہ غم ہے کہ منزل میں بھی مجبور ہیں ہم
نکہت و نور کی دنیا میں بھی بے نور ہیں ہم
اب کہاں لطف تگا پوئے دمادم اے دوست
زندہ رہ کر کے بھی ہے زیست کا ماتم اے دوست
شمع افکار جو خاموش ہوئی ہونے دو
جذب و احساس کافقدان ہوا غم نہ کرو
باغ تخیل کے تنکوں سے کہو خوب جلو
مٹ نہیں سکتی مگر پھر بھی تمہاری ہستی
آگ کی آنچ ہیولےٰ پہ نہیں آسکتی
میرے ساتھی تجھے معلوم بھی ہے راز بہار؟
صرف رولینے سے آتا نہیں غنچوں میں نکھار
روشنی ملتی ہے جب دل کو کرونذر شرار
بادِ صر صر کو چلو رشک بہاراں کردیں
نار نمرود کو فردوس بداماں کردیں
غم کو سینے سے لگا کر ہے سہولت کی تلاش
ساعت ہجر سے مت ڈر جو ہے قربت کی تلاش
میرے ساتھی ہے اگر زیست کی لذت کی تلاش
خون امید کو تم پھول بنانا سیکھو
تلخی زیست کو آنکھوں سے لگانا سیکھو
ہائے منت کشئ جام و صراحی کیسی؟
انعطش کیسا یہ ساقی کی دہائی کیسی
میرے شاعر یہ تری بھیک منگائی کیسی
حسن لیلائے حقیقت تو تری ذات میں ہے
زیست کا بادۂ رنگین تری بات میں ہے
سچ کہا تشنگئ گنگ و جمن باقی ہے
احتیاج مئے نغمات کہن باقی ہے
بزم تہذیب کے ماتھے پہ شکن باقی ہے
ان چٹانوں سے مگر کیسے نکل پائے سکوں
زنگ آلود ہوئے تیشۂ احساسِ دروں
عہد ماضی کی روایات کہن بھولا کون
فکر تخریب میں تعمیر وطن بھولا کون
اپنے اسلاف کا سب چال چلن بھولا کون
ہم نے اعزاز دیا جن کو وہی لوگ تو ہیں
جن سے خود ہم نے کیا پیار وہی روگ تو ہیں
لوگ کہتے ہیں کہ آزاد ہے بھارت کی زمیں
جانے کیا بات ہے مجھ کو نہیں آتا ہے یقیں
تو بھی کہتا ہے فقط ذہن ہی آزاد نہیں
تو ہے آزاد بڑی بھول تجھے ہے پیارے
دیکھ ہر سو نظر آتے ہیں ترے انگارے
اب چراغ سحر آثار رہے یا نہ رہے
جلوۂ رفعت افکار رہے یا نہ رہے
شعلۂ آتش کردار رہے یا نہ رہے
ان اندھیروں میں تجھے راہ بری کرنی ہے
برق افکار سے اک جلوہ گری کرنی ہے
تجھ کو اے شاعر معصوم خبر ہے کہ نہیں
روئے افلاس کی زینت ہے تحمل کانگیں
فقر میں فخر کے پنہاں ہے گہرہائے ثمیں
قلزم صبر میں تم غوطہ لگانا سیکھو
پیٹ کی آگ مرے دوست بجھانا سیکھو
تلخئ زیست کا طالب ہے تو دیوانہ بن
پھونک دے صاعق و حشت سے خرد کا گلشن
تیری ہر چال ہو پیغامبر دارو رسن
تجھ کو مرغوب ہے گر ہوش و خرد کی بستی
تلخئ زیست تجھے راس نہیں آسکتی
وقت کہتا ہے مگر خود کو غزل خواں نہ کرو
غمِ جاناں کو شریک غمِ دوراں نہ کرو
موربے مایہ کو ہم دوش سلیماں نہ کرو
جام کہنہ ہی میں ہے رقص کنا روح حیات
ساغر نو میں کہاں پاؤ گے صہبائے ثبات
دل اگر شہر خموشاں ہے کوئی غم نہ کرو
سونا سونا یہ گلستاں ہے کوئی غم نہ کرو
سوز احساس بھی بے جاں ہے کوئی غم نہ کرو
ٹمٹماتے ہوئے کہتا ہے چراغِ سحری
خاور صبح کی ہونے ہی کو ہے جلوہ گری
داغہائے دل مغموم دکھاؤ نہ مجھے
خواب امید کی تعبیر بتاؤ نہ مجھے
نغمۂ سوز غمِ زیست سناؤ نہ مجھے
جذبۂ کوہ کنی ہو تو پھر آؤ آگے
میری سوئی ہوئی امید کی قسمت جاگے
دلکشی ہے نہ کوئی زیب نہ رعنائی ہے
کیا یہی پیارے چمن زار کی برنائی ہے
کون کہتا ہے کہ کلیوں کو ہنسی آئی ہے
ایسے ماحول میں ماحول چمن پر حیرت
میں تو کہتا ہوں کہ ہے تیری سراسر غفلت
وقت کہتا ہے کہ ٹھکرا دے رباب و ساغر
چھوڑ دے فکر سیہ پوشی جام احمر
سوزش دل سے زمانے کو دے انوار سحر
تیری تعمیر کا جذبہ نہ ہو ممنون چمن
تو قدم رکھ دے تو ہو جائے بیاباں گلشن