/ Friday, 14 March,2025


طلوعِ مہر سے دامانِ شب ہُوا زرتار





قصیدۂ رزمیہ در مدحِ عراق

 

ہوسکتا ہے بعض لوگوں کو صدر صدّام سے کسی قسم کا اختلاف ہو، مگر میں نے یہ اشعار صرف اس لئے کہے تھے کہ اُس وقت صدر صدّام نے امریکہ کے مقابلے میں ثبوت دیا۔ اُن کی اس جرأت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے بغداد شریف، کر بلائے معلیٰ اور نجف اشرف میں مدفون ہستیوں کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کی کیو نکہ سر زمینِ عراق ہماری عقیدتوں اور محبّتوں کا مرجع بھی ہے۔

 

طلوعِ مہر سے دامانِ شب ہُوا زرتار
مگر ہے بار نگاہوں پہ صبح کا اَخبار
ورق ورق پہ جمی سُرخیاں لہو کی ہیں
سیاہ پوش ہر اک سطر مثلِ ماتم دار
جھلک ہے کرے ہوئے آنسوؤں کی لفظوں میں
ہر ایک حرفِ کشیدہ بنا لہو کی پُھوار
اجل گرفتہ کی گردن میں جیسے طوقِ رَسن
یہ دائرے ہیں کہ حلقے بہ دیدۂ بیمار
کوئی بتاؤ سحر اِس قدر اداس ہے کیوں
کوئی تو بولے کہ کیا مجھ کو ہوگیا یکبار
صدا یہ آئی کہ شاید سُنی نہیں تُو نے
جو رزم گہہ سے چلی آرہی ہے چیخ، پکار
چمک رہی ہے غریبوں کے سر پہ برقِ ستم
خدا بنے  ہوئے بیٹھے ہیں آج دنیا دار
بنے امیر ضعیفوں کو لوٹ کر ظالم
کہ سَر اٹھاتا ہے تنکوں کے سر پہ شعلۂ نار
بہم گلے سے ملے ہیں یہود و آلِ سعود
خدا کی شان کہ یکجا ہیں آج لیل و نہار
وہ شہر جن کی ہوائیں تھی کل حیات افزا
بنے ہوئے ہیں وہی آج بیکسی کا مزار
حسین﷜ ہوں کہ وہ پیر﷜ہوں کہ علی ﷜
وہ کربلا ہو کہ بغداد یا نجف کا دیار
حیات میں بھی رہے  مورِدِ غم و آلام
بموں کی زد میں پسِ زیست بھی ہیں اِن کے مزار
عراق ! اے چمنستانِ اولیائے کِبار
تری زمین کے ذرّے ہیں رُوکشِ اقمار
سلام تجھ پہ ہو اے مادرِ زمینِ فرات
کہ تیری کوکھ نے پیدا کیے بڑے شہکار
ہیں تیری خاک میں مدفون کتنی تہذیبیں
تری نگاہ سے گزرے ہیں سینکڑوں ادوار
میں اِس لیے تری عظمت کو بھیجتا ہُوں سلام
کہ تُو ہے مولدِ اقطاب و مدفن ِ اخیار
وہ آفتاب تری گود میں ہیں خوابیدہ
ضیا نواز رہی جن کی ذات، سلسلہ وار
ہوئی حیات بسر جن کی علم و عرفاں میں
جو یاد حق میں رہے بِالعَشیِّ و الاِبکار
ائمّۂ و علماء و مشائخ و فُقہاء
عوارف و صُلحاء و عوابد و اَبرار
حسین﷜ و کاظم﷜ و عباس﷜ و حیدر﷜ و مسلم﷜
ابو حنیفہ﷫ و حلاج﷫ و یوسف﷫ و قصار﷫
جنید﷫ و سِقطی﷫، و معروف﷫ و ادھم﷫ و احمد﷫
شہاب﷫ و شبلی﷫ و پیرانِ پیر﷫ قطب مدار
لکھے ہیں کلکِ بقانے ترے نقوش جلی
مناسکے گا نہ دستِ ستم ترے آثار
خدا کرے کر نہ اُجڑیں تری بھری گلیاں
خدا کرے کبھی سُونے نہ ہوں ترے بازار
نہ چُھو سکے ترا آنچل کسی یزید کا ہاتھ
کھڑا رہے ترے سر پر حسین﷜ بَن کے حصار
کسی شگفتہ کلی کو بُری نظر نہ لگے
نصیب ہو تجھے بچّوں کا یہ بھرا گھر بار
خدا کرے کہ سلامت رہے ترا ہر شہر
بموں کی زد میں نہ آئیں ترے در و دیوار
سُکھی رہیں ترے اپنے دُکھی رہیں دشمن
جمی رہے تری محفل، سجا رہے دربار
خود اپنی آگ میں جل کر رہی راکھ ہوجائے
نہ کار گر ترے دشمن کا تجھ کا پہ ہو کوئی وار
وہ مردِ حق، وہ جری، نام جس کا ہے صدّام
وہ آسمان ِ شجاعت کا مہرِ پُر  انوار
جو آفتاب کی صورت طلوع ہوتے ہیں
ہمیشہ رہتی ہیں تنہائیاں اُنِہیں کا شعار
ہجوم غیر سے سورج کو اِس لیے نہیں ربط
کہ ہے وہ اپنے ہجومِ وجود سے دوچار
جو تُو زمیں پہ، تو سورج فلک پہ ہے تنہا
نہیں یہ امر کسی کی نظر میں باعث عار
تُو رہ گیا ہے اکیلا اگر، تو غم کیا ہے
قوی ہیں نصرتِ حق سے ترے یمین ویسار
یہ مصلحت ہے کہ امتحانِ فطرتِ گُل
کہ اِس کے پہلو میں رکّھا گیا ہے لشکرِ خار
عظیم لوگوں کے ہوتے ہیں امتحاں بھی عظیم
صلاحیت کے مطابق دیئے گئے کردار
ہزار کانٹوں پہ بھاری ہے ایک ریشۂ گُل
نہیں ہے فتح کا کثرت پہ صرف دارومدار
زباں درازئ اعداء سے مضمحل مت ہو
کہ چوٹ کھاتے ہیں پتّھر کی باثمر اشجار
حسد، دلیل ہے محسود کے مدارج کی
عیاں نمودِ خزاں سے ہُوا وجودِ بہار
نہ ہوں صفات تو ممکن نہیں حسد کا عمل
کُھلا حسد سے کہ ہیں خفیہ معترف، اغیار
دعائیں تیرے لیے کر رہا  ہوں مدّت سے
مَیں روز پڑھ کے وَمِن شَرِ حَاسِدٍ  ۱۰۰سوبار
ہوئے ہیں ذہن منوّر ترے تصوّر  سے
ترے خیال نے دل کر دیئے گُل و گُلزار
ترا وجود غنیمت ہے دوستوں کے لئے
ترا حُضُور ہے دشمن کے سر پر اک تلوار
ہوئے ہیں آج صف آرا جو مل کے حق کے خلاف
فرنگیوں پہ خدا کا  غضب، خدا کی مار
ترے جلال سے خائف ہُوا ترا دشمن
لرز اُٹھا تری تدبیر سے دل اشرار
خدا کے قہر کی تصویر ہے غضب تیرا
ہوئے ہیں ایک تری ضرب سے کئی، فی النّار
نہ ہو ملول مصائب کے گُھپ اندھیرے میں
سَحَر کرے گا  شبِ غم کی فالق الاَسحار
نہیں مصائب و غم مرد کے لئے توہین
کہ تھی رسول ﷺ کی مکّی حیات بھی دشوار
جگا رہی ہے مسلماں کی خُفتہ غیرت کو
تری نوا، تری لشکر کشی، تری   لشکر کَشی ، تری للکار
تمیز، امرِ ضروری ہے حقّ و باطل میں
یہی مقامِ تدبّر ہے یا اُولی الاَبصار
رہا نہ دین تو کیوں کر رہیں گے دنیا میں
یہ ولولہ، یہ مُصلّیٰ، یہ مسجدیں، یہ مزار
ہے اہلِ دیں سے تعاون، علامتِ ایماں
نہیں ہے کفر سے کچھ کم، حمایتِ کُفّار
دلیل سورۂ توبہ کی روشن آیت ہے
کہا خدا نے نبی ﷺ سے کہ جَاھِدِ الْکُفّار
کٹھن نہیں کسی دشمن سے دوستی کرنا
علاج کیا ہو، جو بن جائیں دوست ہی غدار
جو کام آئے اَڑے وقت میں، وہ ہے ساتھی
ثبوت ہے مرے دعویٰ  کا اِذْھُمَا فِی الغَار
وہ کم  نظر  ہیں جو طاقت کا ساتھ دیتے ہیں
وہ مرد ہیں کہ جو کہتے ہیں حرفِ حق سرِدار
خبر ہو خاک اُنہیں حرفِ حق کے اِعلاء کی
وہ خود فروش، جو ہیں ابنِ دِرہم، وہ دینار
بنامِ امن جو خَلقِ خدا کے قاتل ہیں
معاف کر نہیں سکتا اُنہیں صحیفہ نگار
یہ بات سچ ہے کہ تیری نبرد کاری نے
نکلال دی ہے دماغوں سے بادِ استکبار
بہ زَعمِ خویش سمجھتے تھے جو خُدا خود کو
اُتر رہا  ہے خدائی کا اُن کے سر سے خُمار
نہ ہو اَداس  فلسطیں کی اے فَسُردہ زمیں!
کہ آرہا ہے تری سَمت کاروان بہار
خدا ہی ہے کہ جو دے فتح حق کو، باطل پر
کہ اک طرف ہیں مسلماں تو اک طرف فُجّار
حسد کی آگ میں جلتے رہیں یُونہی حاسد
خدا کرے کہ بڑھے اور تیرا عزّ و وقار
نَفَس نَفَس میں رہے حُبِّ مصطفی ﷺٰ کی مہک
دُعا یہی ہے کہ ہو خاتمہ معَ الاَبرار
خدا کرے تری قسمت میں ہو نویدِ ظفر
طفیلِ سیّدِ کونین و اٰلِہٖ الاَالطہَار
ترے سخن سے بھی صدّامیت جھلکتی ہے
نصؔیر! تجھ کو مبارَک ! یہ جرأت ِ اظہار
(عرشِ ناز)