/ Thursday, 13 March,2025


تم ہو حسرت نکالنے والے





تم ہو حسرت نکالنے والے
نامرادوں کے پالنے والے

میرے دشمن کو غم ہو بگڑی کا
آپ ہیں جب سنبھالنے والے

تم سے منہ مانگی آس ملتی ہے
اور ہوتے ہیں ٹالنے والے

لبِ جاں بخش سے جِلا دل کو
جان مردے میں ڈالنے والے

دستِ اقدس بجھا دے پیاس مری
میرے چشمے اُبالنے والے

ہیں ترے آستاں کے خاک نشیں
تخت پر خاک ڈالنے والے

روزِ محشر بنا دے بات مری
ڈھلی بگڑی سنبھالنے والے

بھیک دے بھیک اپنے منگتا کو
اے غریبوں کے پالنے والے

ختم کر دی ہے اُن پہ موزونی
واہ سانچے میں ڈھالنے والے

اُن کا بچپن بھی ہے جہاں پرور
کہ وہ جب بھی تھے پالنے والے

پار کر ناؤ ہم غریبوں کی
ڈوبتوں کو نکالنے والے

خاکِ طیبہ میں بے نشاں ہو جا
اَرے او نام اچھالنے والے

کام کے ہوں کہ ہم نکمّے ہوں
وہ سبھی کے ہیں پالنے والے

زنگ سے پاک صاف کر دل کو
اندھے شیشے اُجالنے والے

خارِ غم کا حسنؔ کو کھٹکا ہے
دل سے کانٹا نکالنے والے

ذوقِ نعت