/ Friday, 14 March,2025


تمہارے اعمال نے تمہیں ہی بہت ستایا تو کیا کروگے





تمہارے اعمال نے تمہیں ہی بہت ستایا تو کیا کروگے
دلی تصلب تمہیں ابھی بھی نہ ہاتھ آیا تو کیا کروگے

ابھی تو زندگی ہے جی لو ، شرابِ نفرت کو خوب پی لو
جو موت نے آکے پچھلے گھر کا حساب مانگا تو کیا کروگے

نبی کا رب سے کِیَا تقابُل ، پھنسا یوں شرکِ جلی میں جاہل
حمایت اسکی کرِی ہے تم نے، لحد میں پوچھا تو کیا کروگے

میری کُتُب میں تو سب تھا ظاہر، ہٹا کیوں اس سے بتا تو زاجر
رضا نے بھی حشر میں جھڑک کر ، اسی کو پوچھا تو کیا کروگے

صحابہ کو کہہ رہا ہے خاطی، پھر اُس کو تم نے پناہ کیوں دی
نبی کے اصحاب و آل نے بھی ، جو ساتھ چھوڑا تو کیا کروگے

قبولِ حق میں انا گر آئے ، لو ہم ہی ہارے تمہی تو جیتے
خدا نہ کردہ حسد کے اندر ، یہ دین کھویا تو کیا کروگے

تم اپنی منزل کی راہ لے لو ، نہ اتنا ڈھونڈو کہ خود ہی بہکو
صبح کا بھولا وہ شام کو بھی اگر نہ لوٹا تو کیا کروگے
-------------------------------

 

ہماری غربت پہ کیوں ہو ہنستے ، یہ فِقرے تم جو ہو خوب کستے
تمہارے فقروں نے طوق بن کر تمہیں پھنسایا تو کیا کروگے

ہے علم و شہرت کا تم کو دعوہ ، اُسی پہ بٹّا لگےتو شکوہ؟
حسابِ عشق عاشقوں نے تمہی کو سونپا تو کیا کروگے

پتا ہے مجھ کو سکونِ ساحل ، مگر ہوں پھر بھی بھنور میں حائل
میں ڈوبتا ہوں تو ہنس رہے ہو ، میں تَیر آیا تو کیا کروگے

ابھی تو ڈرتے ہو کشتیوں سے ، ہو خوب مانوس ساحلوں سے
او خوفِ غرق رکھنے والوں جو ایلا آیا تو کیا کروگے

نہیں ہے پچھم سے شمس نکلا ، بتا دو فاراں ہے وقتِ توبہ
نعوذ باللہ حجاب اُٹھتے خیال آیا تو کیا کروگے