اُن کےدرکے سگ سے نسبت ہو گئی حاصل مجھے
کیا دبا پائے بھلا پھر قوّتِ باطل مجھے
یہ تمنا ہے کہ کہہ دیں آپ عاشق ہے میرا
غرض کیا دنیا کہے کہتی رہے جاہل مجھے
میرے آقا نے پتا خود ہی بتایا حشر کا
پیاس کی شدت میں ملنا جانبِ ساحل مجھے
دشمنِ احمد پہ شدت کے فوائد کیا کہوں
رحمتِ عالم کی رحمت ہو گئی شامل مجھے
بے بس ان کو کہہ دیا اصحاب کو خاطی لکھا
کیا نہیں تھا رد ضروری یہ بتا غافل مجھے
حیف صد افسوس اس مسئلہ کو ذاتی کہہ دیا
فرضِ اُمت کیا یہی تھا؟ ہاں بتا اے دل مجھے
حفظِ ناموسِ رسالت کا جو مسئلہ ہو کہیں
اے خدا کر دے کرم سے ہر جگہ حائل مجھے
اپنے نانا حضرت طیب کے تیور میں کہو
اے جنونِ عشق لے چل اور اک منزل مجھے
پھر تو فاراں ہے شفاعت کے لئے کافی یہی
حُبٌّ لِلہ بُغْضٌ لِلہ پر رَکِھے عامل مجھے