ان کی یادوں کا ہے یہ فیض برابر دیکھو
میں فقیری میں بھی ہوں کتنا تو نگر دیکھو
بے سبب پال رہے ہیں میرے آقا مجھکو
دیکھنے والو ذرا میرا مقّدر دیکھو
وہ بے مثال بھیک شِہ بے مثال دے
جو عمر بھر نہ فرصتِ عرضِ سوال دے
اس پر زوال آ نہیں سکتا خدا گواہ
رحمت جسے تمہاری نوید وصال دے
اے مہر لا زوال رحیم وکرم خصال
ذرہ ہوں مجھ کو تابش ِ بدر کمال دے
اے بے مثال تیرا کرم بھی ہے بے مثال
حیران آئینہ ہو کچھ ایسا جمال دے
جب مانگنا ہے تجھ سے تو مانگوں گا اس طرح
دونوں جہاں ہی مری جھولی میں ڈال دے
اب اس نظر سے کیا نہ توقع رکھے کوئی
بے جان پتھروں میں بھی جو جان ڈال دے
ایسا کریم ان کے سوا اور کون ہے
دل سے ضرورتوں کے جو کانٹے نکال دے
تصویربن سکوں تر سے اقوال ِ پاک کی
سیرت نواز مجھ کو بھی وہ خدوخال دے
رحمت ہے جس کی عام بغیر امتیاز کے
ممکن نہیں کہ وہ کسی سائل کو ٹال دے
اس التفات ِ خاص کی ہے مجھکو آرزو
جو زندگی کو آپ کی سیرت میں ڈھال دے
خاؔلد کے حق میں عزت و تو قیر ہے یہی
حسان کا خلوص دے ذوق بلال دے