/ Friday, 14 March,2025


وطن کی صبح و شام کی لطافتوں کو چوم لو





نوائے نرم گرم

جناب اعجاز صدیقی مدیر’’شاعر‘‘ کی ایک نظم پر

تضمین

وطن کی صبح و شام کی لطافتوں کو چوم لو
گلوں کی مسکراہٹوں نزاکتوں کو چوم لو
یہی تو اقتضاء تمہاری زندہ خاطری کا ہے
صباحتوں کو چوم لو ملاحتوں کو چوم لو
گلوئے کہکشاں میں بڑھ کے اپنے ہاتھ ڈالدو
عروج کا غرور اس کے سر سے تم نکال دو
لگاؤ جست ایسی برق و باد بھی ہوں خیرہ تر
زمیں پہ رہ کے آسماں کی رفعتوں کو چوم لو
جہان رستخیز میں ہے صرف قدر دل وہی
شہنشہی کے ساتھ ہو غلامئ ایاز بھی
عداوتوں کے خوگرو خدا کے واسطے سنو!
یہ نفرتیں گناہ ہیں، محبتوں کو چوم لو
تمہاری منزلیں ہیں دورکہنہ مہر و ماہ سے
فلک بھی پست ہے تمہاری رفعت کلاہ سے
یہ نغمے پھوٹ نکلےہیں جہان نو کے ساز سے
قدامتوں کو بھول جاؤ جدتوں کو چوم لو
کرو حوادثات کا مقابلہ خوشی خوشی
تقاضہ زندگی کا ہے یہ اور یہی ہے زندگی
الجھنا سیکھو خار سے اگر ہے گل کی آرزو
ہے راحتوں کی جستجو تو کلفتوں کو چوم لو
ہے ان کے اشتراک ہی سے سوز و ساز زندگی
غم و خوشی ہے کوہکن سے پوچھ راز زندگی
لبوں پہ ہو ہنسی اور آنکھ بھی ہو اشک سے بھری
جھکاؤ سر حضور غم مسرتوں کو چوم لو
گریز مصلحت نہیں فرار مستحب نہیں
عجب ہے کہ سمجھ میں تیری یہ کوئی غضب نہیں
صداقتوں عدالتوں کے مرکزِ نگاہ ہو
تمام اپنے دور کی صداقتوں کو چوم لو
ترقیوں کی راہ کی صعوبتیں ہیں رحمتیں
نقاب مشکلات میں چھپی ہوئی ہیں راحتیں
لو کام عزم کوہکن سے گر ہو کوہ سامنے
ہزار زحمتیں بھی ہوں تو زحمتوں کو چوم لو
ہے یہ بھی خود شناسیوں کی ایک راہ بہتریں
نہیں ہے چیز بھولنے کی اس کو بھولنا نہیں
نہ مل سکے گا تم کو ورنہ قیمتی سایہ نگیں
دراتیوں سے کام لو روائیتوں کو چوم لو
فضائے رنگ و بو سے غیر کیوں ہو کیف آشنا
بتاؤ کنج بے کسی میں کس لئے ہوں غم نما
نہیں روا خود اپنے گلستاں سے ایسی بے رخی
چمن فروشیاں بری ہیں نکہتوں کو چوم لو
بلک رہی ہے زندگی سِسک رہی ہے زندگی
گلوپہ اس کے جھلملا رہی ہے دھارتیغ کی
فریب دے کہیں نہ یہ تری تساہلی تجھے
یہ وقت ہے کہ وقت کی نزاکتوں کو چوم لو
مری نوائے نرم گرم کا یہی ہے ماحصل
حوادثات دور کے ہر ایک رخ کو دوبدل
ندامتیں اچھال دیں گی تم کو کہکشاں تلک
گناہ گار ہو سہی ندامتوں کو چوم لو